چین اُن معاشی روابط کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا جو وسط ایشیائی ریاستوں کو روس سے جوڑے ہوئے تھے

احمد رشید
عالمی دانشور اور خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین وسطی ایشیائی ریاستوں پر غیر معمولی حد تک اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔ اس وقت بھی چین ہی ان ریاستوں میں سب سے اہم معاشی قوت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک دھائی کے دوران چین نے وسطی ایشیا میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس وقت چین ان ریاستوں کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا رہا ہے۔ اس نے بحیرہِ کیسپین میں آئل پائپ لائن بچھاتے ہوئے قازقستان کے ایک چوتھائی تیل پراجارہ داری حاصل کرلی ہے، جبکہ ترکمانستان کی گیس کا اہم خریدار بھی چین ہی ہے۔ 2002ء میں چین کا ان ریاستوں کے ساتھ تجارتی حجم ایک بلین ڈالر سے زیادہ نہیں تھا؛ تاہم 2006ء میں یہ بڑھ کر دس بلین ڈالر تک پہنچ گیا، 2010ء میں چین کا ان کے ساتھ تجارتی حجم 28 بلین ڈالر تک تھا جبکہ اسی مدت کے دوران ان ریاستوں کا روس کے ساتھ تجارتی حجم صرف 15بلین ڈالر تھا۔ دراصل چین ان معاشی روابط کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو وسطی ایشیائی ریاستوں کو روس کے ساتھ جوڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر پر روس کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔
1436 وسطی ایشیا کی یہ ریاستیں چین کو توانائی کے حوالے سے بہت تحفظ فراہم کرتی ہیں کیونکہ سمندر کے راستے آنے والے تیل کو کسی بھی ہنگامی حالت میں امریکی بحری قوت روک سکتی ہے لیکن یہ پائپ لائنز چین کو اس خوف سے بے نیاز کر دیتی ہیں ، تاہم چین کے لیے یہ دو جمع دو چار کا کھیل نہیں ہے کیونکہ ان ریاستوں میں اس کے مخالف جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات تیسری دنیا کی تمام ریاستوں کے لیے یکساں ہے۔ چین کو ایک ایسی عالمی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو خود مالی فوائد حاصل کرتا ہے لیکن اس کے عوض قابلِ ذکر مدد نہیں دیتا۔ چینی کمپنیاں اپنے مزدور لاتی ہیں، اپنا ساز و سامان استعمال کرتی ہیں، وہ مغربی کمپنیوں کے برعکس مقامی لیبر نہیں رکھتی ہیں اور نہ ہی کسی کو مطلوبہ ٹریننگ فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مقامی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی پراڈکٹس بھی نہیں خریدتی ہیں۔ اس سے اس ریاست کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے میں چین کا کردار تقریباً صفر ہوتا ہے۔
1 چین کے اس رویے کے علاوہ کچھ سازشی تھیوریاں بھی گردش میں ہیں کہ چین وسطی ایشیائی ریاستوں میں وسیع پیمانے پر زرعی زمین خرید کراپنے لاکھوں کسانوں کوآباد کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان ریاستوں کے رہنما چین کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے ہوئے ہیں، لیکن یہاں کے لوگ چین کے بڑھتے ہوئے اثر سے خائف ہیں۔ اس کے علاوہ ان ریاستوں کے لوگ چین کے اس رویے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے کہ وہ یہاں کے حکمرانوں سے معاشی اصلاحات، انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا۔ اس کے برعکس مغربی ممالک ان معاملات کو اپنے تعلقات میں سرفہرست رکھتے ہیں۔
’’انٹر نیشنل کرائسسز گروپ‘‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ، ’’وسطی ایشیا میں چین کے مسائل ‘‘، کے مطابق:’’چین وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنے روایتی طریقوں سے تجارت اور سرمایہ کاری کو دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا۔ اسے مقامی آبادی کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔‘‘ اس بڑھتے ہوئے ادراک کے باوجود چین افغانستان، جس کے ساتھ اس کی وخان کے مقام پر پچاس کلومیٹر سرحدی پٹی لگتی ہے، کے لیے بھی ایسی ہی روایتی پالیسی رکھتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے اس نے افغانستان کو سیکورٹی یا انفراسٹرکچر کے حوالے سے کوئی مدد فراہم نہیں کی ہے۔ گزشتہ بارہ سالوں میں اس نے افغانستان کو صرف دو بلین ڈالر معاشی امداد فراہم کی ہے، جبکہ اسی دوران بھارت، جس کی معاشی حالت چین کے مقابلے میں بہت پست ہے، افغانستان میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس سرد مہری کے باوجود اب جبکہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان سے جانے والی ہیں، چین افغانوں سے روابط بڑھا رہا ہے تاکہ یہاں سے خام مال حاصل کر سکے۔ اس ضمن میں چین نے کابل کے نزدیک ایانک کاپر مائینز میں ساڑھے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ شمالی افغانستان میں واقع تیل کے میدانوں کے لیے بھی سرمایہ کاری کی پیش کش کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خام مال کی تجارت سے افغانستان کو درکار مالی تحفظ حاصل ہو گا اور اس جنگ زدہ ملک کی عوام کچھ سکھ کا سانس لے گی ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مکمل امن ہو ورنہ چینی کمپنیاں معدنیات کے لیے کھدائی نہیں کر سکیں گی۔ اس کے لیے چین کو 2014 کا انتظارکرنا پڑے گا لیکن اس کے بعد بھی افغانستان میں قیامِ امن کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
f7 چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں کو ایس سی او (شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن) میں شامل کیا ہواہے۔ یہ ان ممالک کے لیے سب اہم کثیر ملکی تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد 1996 رکھی گئی۔ اس میں چین اور روس کے علاوہ چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں(ترکمانستان اس کا رکن نہیں ہے) جبکہ ہمسایہ ریاستیں، پاکستان ،انڈیا اور ایران، بھی اس کا رکن بننے کی کوشش کررہی ہیں۔ بہت سے مغربی تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایس سی او صرف کاغذائی کاروائی کی حد تک ہی تنظیم ہے کیونکہ اس میں شامل ممالک وہ ہیں جو دھشت گردی کے خلاف مشترکہ فوجی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان میں اکثر کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کے لیے تیار نہیں۔ اس تنظیم کا کوئی فوجی ہدف ہویا نہ ہو، چین نے اس کے ذریعے اپنے بنیادی مقصد کاحصول ممکن بنا لیا ہے۔ اس تنظیم کا ماٹو133 ’’دھشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ‘‘ ہے۔ اس طرح چین نے اپنے سب سے بڑے دردِ سر یغور کے مسلے کو ایک طرح سے دبا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کو عالمی سطح پر القاعدہ سے اتنی تشویش نہیں جتنی یغور سے ہے۔
187 وسطی ایشیائی ریاستیں روس، ترکی اور Caucasus کو تجارت کے لیے راہداری فراہم کرتی ہیں اوران ریاستوں میں چین کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب چین ہی افغانستان اور ان ریاستوں میں اپنے تجارتی مقاصد کو آگے بڑھائے گا۔ اس طرح دنیا کا یہ بہت بڑا خطہ اس کے سفارتی حلقہ اثر میں شامل ہوجائے گا۔ یہ سب ٹھیک ہے ،لیکن ایک بنیادی سوال اپنے جگہ پر رہے گا کہ کیا چین یہاں کی حکومتوں پر معاشی اصلاحات ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے دباؤ ڈالے گا؟یا پھر اس کابنیادی مقصد اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد کا حصول ہی ہوگا؟کیا یہ افغانستان کو طویل جنگ کے بعد ہونے والی تباہی سے نمٹنے میں مدد دے گا؟ فی الحال چینیوں نے افغانستان میں قیامِ امن اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی قسم کا بھی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چین کا پاکستان پر بھی بہت اثر ورسوخ ہے لیکن اس نے کبھی پاکستان پر بھی دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ اپنے ہاں مقیم طالبان کے خلاف کاروائی کرے۔ اسی طرح اس نے ایس سی او کے پلیٹ فارم سے کسی ایجنڈے کا بھی اعلان نہیں کیا کہ2014 ، جب نیٹو اور امریکی افواج افغانستان سے انخلا مکمل کرلیں گی، کے بعد ان کا لالحہ عمل کیا ہوگا؟ اگر دیکھا جائے تو اس تنظیم میں شامل ریاستوں میں سے صرف چین کے پاس ہی وہ معاشی قوت ہے جو افغانستان میں قیامِ امن میں سود مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن معدنیات نکالنے کے ساتھ ساتھ کیا چینی رہنما اس بات کی ذمہ داری اٹھائیں گے؟
M8 سن2011 سے امریکا نے بھی وسط ایشیا ئی ریاستوں کے ساتھ ’’سلک روٹ سٹرٹیجی‘‘ پر کام کرنے کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد اس خطے میں وسیع پیمانے پر انفرا سٹرکچر تعمیر کرنا تھا۔ اس میں سب سے اہم منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھانا تھا۔ اس پائپ لائن کو افغانستان کے جنوبی علاقوں سے گزرنا تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں ریلوے سسٹم کی تعمیر اور کرغیزستان سے پاکستان اور افغانستان میں بجلی کی سپلائی کے منصوبے بھی شامل تھے۔ تاہم یہ سٹریٹجی اپنی موت مرگئی کیونکہ اس کی کامیابی کا دارومدار طالبان کے ساتھ پر امن مذاکرات کے علاوہ خطے کے اہم ممالک، جیسا کہ چین، انڈیا، ایران، سعودی عرب، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے رویے اور تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات پر تھا۔ اس ضمن میں روس نے بھی متضاد پالیسی اپنائے رکھی۔ اس نے وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان میں امریکا کو فوجی اڈے قائم کرنے دیے۔ پھر اس نے ان ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ امریکا کے ساتھ معاہدے منسوخ کردیں۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ 2014 کے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج مکمل طو ر پر چلی جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد طالبان اور ڈرگ مافیا پھر سے سر اٹھالیں گے۔
1395 آج سے بیس سال پہلے تک وسط ایشیائی ریاستیں امریکا کے ساتھ کوئی معاہدے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں لیکن اب روسی دباؤ کے باوجود ان کی امریکا کے لیے نرم پالیسیاں رہی ہیں۔ آج یہ ریاستیں کھلے عام روسی اثر کو مسترد کرتے ہوئے چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھاتی نظر آتی ہیں۔ سوویت تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ان ریاستوں میں جمہوری اقدار کا فروغ سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اس میں پیش رفت جاری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ معاشی خوش حالی کے ساتھ یہاں کے لوگ جمہوری روایات کا استحکام بھی دیکھیں گے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار یہاں کے سیاسی رہنماؤں کا ہے۔ فی الحال وہ آپس میں تقسیم، بلکہ تصادم کی راہ پر ہیں۔ اگر وہ آپس میں امن اور تعاون کی فضا قائم کر لیتے ہیں تو یہ خطہ دنیا کے مستقبل کے لیے اہم کردار ادا کرنے والا ہے۔

GET THE BEST DEALS IN YOUR INBOX

Don't worry we don't spam

Retailer Pakistani
Logo