تھائی لینڈ کی سرزمین پرقدم رکھنے والے پہلے مسلمان تاجر

محمد ذیشان بخشی

سلطنت ملاکا  ایک مالے سلطنت تھی جو جدید ملاکا، ملائیشیا میں قائم تھی۔ یہ مسلمانوں کی سلطنت تھی۔ اس کا سرکاری مذہب اسلام تھا۔ روایتی طور پر اس سلطنت کا قیام 1400سن عیسوی  کے قریب مالے سنگاپورہ (ingapura) کے راجہ، سکندر شاہ نے کیا۔ موجودہ ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور اس سلطنت کا حصہ تھے۔  دارالحکومت ملاکا تھا۔ آج تھائی لینڈ میں مسلمان تعداد میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہیں۔  ان کی شرح 5.08فیصد ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد9 لاکھ 30 ہزار ہے۔ ایک دورسری رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں مسلمان ملک کی مجموعی آبادی کا 10فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ مسلمان زیادہ تر ’یالا‘،’ پتانی‘ ،’ ساتون‘ اور ’ نراتھیوت‘  میں آباد ہیں۔ دراصل یہ سلطنت ملاکا ہی کے آثار ہیں۔  باقی اہلِ مذاہب بہت کم ہیں۔

جب ہم اس سلطنت  یا تھائی لینڈ کے ماضی کے اوراق کھنگالتے ہیں تو ہمیں ایک نام پڑھنے کو ملتاہے : ژینگ ہی، ان کا اصل نام حاجی محمود شمس الدین( 1371 ـ 1433) تھا ، ایک چینی مسلمان سیاح ، سفیر اور بحری سالار تھے۔ انہوں نے 1405ء  اور 1433ء  کے درمیان جنوب مشرقی ایشیا ، جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ کو بھیجی جانے والی کئی بحری مہمات کی قیادت کی۔ انہیں عربی اور چینی دونوں زبانوں پر عبور تھا۔ ان کے جد امجد سید اجل شمس الدین ایرانی النسل تھے جو منگول دورِ حکومت میں چین کے صوبہ یونان کے گورنر بنائے گئے۔ یونان ہی میں ژینگ ہی کی پیدائش ہوئی۔ 1405ء  اور 1433ء  کے درمیان چین کی مِنگ حکومت نے سات بحری مہمات بحر ہند کے مختلف ساحلوں کی طرف بھیجیں۔ ژینگ ہی کو ان مہمات اور ان پر جانے فوجی دستوں کا سالار بنایا گیا۔ ان میں سے صرف پہلی مہم میں 317 جہاز اور 28000 فوجی اور دیگر کارکن شامل تھے۔ ژینگ ہی ان مہمات میں عرب، برونائی، مشرقی افریقہ، ہندوستان، جزائر ملایا اور تھائی لینڈ گئے۔ ژینگ نے مقامی حکمرانوں کو سونی، چاندی، چینی برتنوں اور ریشم کے تحائف پیش کیے جبکہ مختلف مقامی بادشاہوں نے انہیں شتر مرغ، زیبری، اونٹ، ہاتھی دانت اور زرافے تحفے میں دیئے۔ایک دوسرے تذکرے کے مطابق ژینگ ہی  کا انتقال 1375ء میں ہوا، وہ منگ حکومت کے ماتحت تھے۔ وہ  مشرقی افریقہ، بھارت، عرب، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے علاقوں کے میں تجارت کرتے تھی، انھوں نے چینی قوم کو بحری قزاقوں سے نجات دلانے کے لئے غیرمعمولی خدمات سرانجام دیںا ور کامیابی حاصل کی۔ یہ وہی ژنگ ہی ہیں جن کے بارے میں خیال ظاہرکیاجاتاہے کہ امریکہ کولمبس نے نہیں، ژنگ ہی نے دریافت کیاتھا۔ چین میں برآمد کئے جانے والے ایک قدیم نقشہ ،جس کی  بیجنگ اور لندن میں سن 2006ء میں نمائش ہوچکی ہی، یہ ثابت کرتا ہے کہ  کولمبس سے پہلے ایک چینی شخص امریکہ پہنچا تھا۔ اس نقشہ میں شمالی اور جنوبی امریکہ کو دکھایا گیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سن 1418 میں بنائے جانے والے ایک نقشے کی نقل ہے جو سن 1763 میں تیار کی گئی۔چینی رسم الخط میں اس نقشے کے ساتھ یہ بھی کنندہ ہے کہ اسے مو ای تونگ نامی شخص نے بنایا تھا اور چینی شہنشاہ یونگل کے اقتدار کے سولہویں سال یعنی سن 1418 میں تیار کیے جانے والے ایک نقشے سے اس کی نقل تیار کی گئی۔ نقشے میں افریقہ اور آسٹریلیا دکھایا گیا ہے لیکن یورپ کے ملک جیسے برطانیہ کا نام و نشان نہیں ہے۔

سن 2001ء  میں اس نقشے کو شنگھائی میں ایک تاجر سے چینی وکیل اور کلیکٹر لیوگانگ نے خریدا تھا۔ ہفتہ وار جریدی’ اکانومِسٹ‘ کے مطابق، لیو گانگ کو نقشے کی اہمیت اس وقت معلوم ہوئی جب انہیں برطانوی مصنف گیوِن مینزیز کی ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ مینزیز کی کتاب کا نام ہی: ’’چودہ سو اکیس …… جس سال چین نے امریکہ کی تلاش کرلی۔‘‘( Year China discovered America   …..The 1421 ) ۔اس کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی ایڈمرل ’ژینگ ہی‘ نے دنیا کا بحری چکر لگایا اور سفر کے دوران امریکہ بھی دریافت کیا۔ اس کتاب میں بھی لکھاگیاہے کہ ژینگ ہی ایک چینی ایڈمرل، محقق اور مسلمان  تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جنوب مشرقی ایشیا اور انڈیا کا چکر لگایا۔  انڈونیشیا  میں صوبہ جنوبی سماٹرا کے دارالحکومت پالم بانگ میں ایک مسجد تعمیر کی۔ انتہائی دلکش نظارے والے اس مسجدکی غیر معمولی بات  اس کا دیدہ زیب رنگوں والا طرزِ تعمیر ہے۔ اس عمارت پر گہرا سرخ اور گلابی رنگ کیا گیا ہے اور اس کے اوپر زمرّدیں سبز گنبد ہے۔ عمارت کی دونوں اطراف میں دو مینار کھڑے ہیں۔ یہ  ’محمد چینگ ہو مسجد‘ ہے۔ چینی ثقافت اور اسلام کے امتزاج کی علامت یہ مسجد شہر کے مرکز کے نزدیک واقع ہے اور اس کا ڈیزائن جاوی طرز کے گرد وپیش سے بالکل مختلف چینی انداز میں بنایا گیا ہے۔ 2006 میں تعمیر کی گئی پالم بانگ کی مسجد کا نقشہ اِسی مسجد سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔اس مسجد کو ’ژینگ ہو‘ سے موسوم کیا گیا ہے جو ’ژینگ ہی‘ کے نام سے معروف ہے۔ انڈونیشیائی محققین بھی لکھتے ہیں کہ ژینگ ہی نے انڈونیشیا میں اسلام کی اشاعت میں مدد کی تھی۔ ایک مقامی تاریخ دان کے مطابق ’ژینگ ہی‘ نے 1405ء  اور 1433ء کے درمیانی عرصہ میں قزاقوں کے گروہ تباہ کرنے کے لئے چار دفعہ پالم بانگ کا دورہ کیا تھا۔

اس مسجد کی تعمیر کا انداز بہت منفرد ہے جس میں پالم بانگ کی مقامی ثقافت کے عناصر اور چینی اور عرب ثقافتوں کے رنگ جھلکتے ہیں۔ پانچ ہزار مربّع فٹ رقبے پر پھیلی یہ مسجد درمیانے طبقے کے ایک رہائشی کمپلیکس میں بنائی گئی ہے۔ مسجد کی دونوں طرف بنے مینار چینی پگوڈا جیسے ہیں جن پر سرخ اور زمرّدیں سبز رنگ کیا گیا ہے۔

اس دو منزلہ مسجد کو اگست 2008 میں کھولا گیا تھا۔ مسجد میں مرد نیچے نماز پڑھتے ہیں اور خواتین عبادت کے لئے اوپر والی منزل پر چلی جاتی ہیں۔ یہ مسجد محض عبادت کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں مذہبی اور سماجی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں اور یہ سیّاحوں کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے جسے دیکھنے کے لئے ملائشیا، سنگا پور، تائیوان یہاں تک کہ روس سے بھی لوگ آتے ہیں۔
تھائی لینڈ سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے سارے خطے میں اسلام کی آمد بھی مسلمان تاجروں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ ژینگ ہی کے علاوہ بھی مسلمان چینی تاجروں کی ایک بڑی تعداد تھائی لینڈ کے علاقوں میںا ٓباد ہوئی۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ تھائی لینڈ میں اسلام بھارت سے آنے والے مسلمان تاجروں نے اپنے کردار وعمل سے پھیلایا۔ تاہم بعض مثالیں کچھ اور بھی خبر دیتے ہیں۔ مثلاً جنرل سونتی بونیا راتگالِن، تھائی لینڈ کے پہلے مسلمان آرمی چیف جن کے آبائواجداد فارسی تھے جو کئی صدیوں پہلے یہاں آباد ہوئے تھے۔ ان میں شیخ احمد قومی بھی تھے جو ایک تاجر تھے اور کم ازکم 26برس تک یہاں مقیم رہے۔ تھائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا شجرہ نسب انہی سے جوڑتی ہے۔ _چین سے (تھائی لینڈ) آنے والے مسلمان تاجروں کے بارے میں معروف مغربی مصنف ’سٹین لی پول‘ نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیاہی: ’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اورکبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضاء  تک پہنچے اورحاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔وہ عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے۔ وہ متعصب نہ تھے بلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی تھی وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘ایک اورمستشرق ہیدنے مسلمان تاجروں کی عظمت وکرداراوران کی تبلیغی مساعی پر جن الفاظ سے روشنی ڈالی ہے ملاحظہ کریں:’’یہ امردلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ دنیاکا نقشہ بتاتاہے کہ جہاں سے مسلمانوں کے تجارتی قافلے گزرتے گئے وہاں آس پاس کی آبادیاںمسلمان ہوتی گئیں۔‘‘ایک اورمستشرق آرنلڈنے کے قلم سے مسلمان تاجروں کی مدح سرائی بھی سنیی:’’ان تاجروں کے ساتھ ساتھ داعیانِ اسلامجو دراصل تاجرہی تھے مسلمان تاجروں کے متعین کردہ تجارتی راستوں پر پیدل اورسوارچل کر ان علاقوں میں اسلام کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جن راستوں پر چل کر مسلمان تاجردنیاکے مختلف حصوں میں تجارت کرنے جایا کرتے تھی، یعنی حبشہ ،صومالیہ اورافریقہ کے دوسرے ممالک مثلا کینیا، یوگنڈا، تانگانیگاو غیرہ اسلام کے سایہ عاطفت تلے آگئے۔دراصل ان ممالک کی فتوحات شمشیروسناں سے زیادہ مسلمان تاجروں کی صداقت وعظمت کی رہین منت ہیں۔

آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ نے چین کا سفر کیاتواس نے مسلمان تاجروں کا حال یوں بیان کیا: چین کے تمام شہروں میں مسلمانوں کے مکانات تھے اوران کے ہرمحلے میں مسجد تھی جہاں وہ نمازیں اداکرتے تھے ،ونہایت معززاورمحترم تھے۔اب ذراتصویر کے دوسرے رخ کو بھی ملاحظہ کیجیے کہ غیرمسلموں نے تجارت کے ذریعے کیاکیاکارنامے سرانجام دیی:

1 ۔ برصغیر پاک وہندپر سب سے پہلے ولندیزی پھرفرانسیسی اورآخرکارانگریزتجارت کی آڑ میں اس ملک کے کلچر،تہذیب ،تمدن ،مال دولت سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔بلاشبہ ان کو تاجرکی شکل میں ڈاکو کہاجاسکتاہے۔

2 ۔ اسلامی ممالک بالخصوص مصر،شام اورعراق وغیرہ پر بھی قبضہ کیااور لوٹا۔ یہی سب کچھ تجارت کی آڑمیں کیا گیا۔ 

3۔ جرمنی نے اسی ہوس میں تجارت کی آڑمیں نوآبادیات قائم کیں،اٹلی نے تجارت کی آڑمیں حبشے کو تہ وبالاکرڈالا

4 ۔فلسطین میں برطانیہ اورمشرق بعید میں چاپان نے جوگل کھلائے وہ تاریخ کا تاریک باب ہیں وہ سب تجار ت ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں مگر تاریخ کے مطالعے اورمسلمان تاجروں کے بارے میں مستشرقین کے مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان تاجروں کی تابناک تاریخ کے کسی ورق پر کوئی بھی ظالمانہ داستان نہیں ملے گی جس میں تجارت کے ذریعے سے مسلمانوں نے کسی قوم پر ظلم ڈھائے ہوں یا ان کا امن برباد کیاہو،ہاں اس بات کے معترف مستشرقین بھی ہیں کہ مسلمان تاجروں کے کریمانہ اخلاق اورمومنانہ رویے سے متاثرہوکر جن اقوام عالم نے اسلام کی دولت پائی اس میں مسلمان تاجروں کے تاریخی اسفارکو بہت بڑادخل حاصل ہے۔یہ سب تو تاریخ کا حصہ بن چکاہے اوراسی’’ اولئک آبائی فجئنی بمثلھم‘‘(یہ میرے آبائواجداد اور اکابر ہیں، ان سا کوئی ہے تمہارے پاس تو لے آئو) کے جملے میں سمیٹا بھی جاسکتاہے لیکن اس کی روشنی میں ہمیں کیاکرناہے۔ زیرنظرتحریرمیں اپنے قارئین تاجربھائیوں تک وہ دستک پہنچانی ہے۔

میں مستشرقین کی مسلمان تاجروں کے بارے میں ذکر کردہ خویباں مختصرادوبارہ شمار کرواتا ہوں، امید ہے کہ اگلی دستک یہ الفاظ خود دے لیں گی:

1۔ امانت دار،خیانت نہیں کرتے تھے۔2 ۔اعلیٰ اخلاق کریمانہ سے متصف تھے۔

3 ۔جھوٹ اورفریب سے کوسوں دورتھے۔

4۔ عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے۔5۔ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔

GET THE BEST DEALS IN YOUR INBOX

Don't worry we don't spam

Retailer Pakistani
Logo