ایران میں ابھی تک جن مغربی کمپنیوں نے اپنے بڑے ریٹیل سٹورز کھولے ہیں ان میں مینگو، بینیٹن اور ایسکاڈا اہم ہیں۔ مریم ایک دفتر میں کام کرتی ہیں۔ وہ سالانہ 17 ہزار ڈالر کماتی ہیں اور انھوں نے حال ہی میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے زیادہ کی قیمت کا ’بربری‘ کمپنی کا بیگ خریدا ہے۔ انھوں نے یہ بیگ قیمتی برانڈز کی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک ایرانی ویب سائٹ سے خریدا تھا۔ یہ ویب سائٹ مقامی کریڈٹ کارڈ سے رقم کی ادائیگی قبول کرتی ہے اور سامان مفت گھر بھجوا دیتی ہے۔ مریم نے بتایا کہ انھیں سستا سامان خریدنے سے زیادہ برانڈڈ مصنوعات پر بھروسہ ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں پر قیمتی کپڑے اور گھڑیاں پہننے کا دباؤ ہوتا ہے، اور ذاتی طور خود مجھے بڑے برانڈز کے کپڑے پہننے سے خوداعتمادی کا احساس ہوتا ہے۔‘ کئی برسوں سے عالمی پابندیوں کے باوجود ایم آئی ایف یعنی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے مطابق ایران کی فی کس آمدن 5200 ڈالر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے ایران میں عام طور پر لوگوں کے پاس تیزی سے ترقی کرتے ممالک جیسے برازیل، چین، انڈیا، اور جنوبی افریقہ کے لوگوں سے زیادہ پیسہ ہے۔ اب امید کی جارہی ہے کہ جوہری معاہدہ ہونے پر ایران پر عائد پابندیاں ختم ہونے سے وہ بڑے برانڈز، جنھیں ایران جیسی نئی منڈی میں قسمت آزمائی کا انتظار ہے، امیر تر ہو جائیں گے۔