ڈاکٹر عبیداللہ
’ڈاکٹر صاحب، یہ جو کراچی والے ہیں نا، یہ زبردست بزنس سینس رکھتے ہیں‘ اگر ہمارے ہاں کوئی اس طرح کا بزنس مین ہوتا توچند ماہ میں لکھ پتی بن جاتا‘نسیم صاحب مجھے بزنس کے رموز وآداب سکھا رہے تھی‘ میں ان سے بہت متاثر تھا کیوں کہ پشاور میں ایسے مخیر حضرات کم ہی ملتے ہیں جو اپنی کمائی میں مستحقین کا خیال رکھتے ہیں ‘انہوں نے کئی ایک ادارے خود بنائے ہوئے ہیں جن کے سارے اخراجات نہ صرف اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں بلکہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے بھی رقم جمع کرنے سے نہیں چوکتے۔ پشاور کے عوام ان کے بہت مشکور ہیں۔
اکثر اخبارات میں ان کی تصویرکسی وزیرِ وغیرہ کے ساتھ آتی رہتی ہے۔وہ کل شام میرے کلینک تشریف لائے تھی‘چونکہ مریضوں کو نمٹا چکا تھا اور کوئی آپریشن بھی نہیں کرنا تھا اس لئے فرصت تھی‘چائے پیتے ہوئے ہم دونوں گپ شپ کرنے لگے۔ میں نے ویسے ہی کاروبار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کافی اطمینان کا اظہار کیا کہ کاروبار میں اگر دماغ سے کام لیا جائے تو نقصان کا امکان بہت کم رہ جاتا ہی‘پھر انہوں نے کراچی کی بزنس کمیونٹی کی تعریفیں شروع کیں‘ان کا کہنا تھا کہ اگر مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو معمولی کاروبار میں بھی حیرت انگیز طور پر زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے ایک مثال سے بہت خوبی کے ساتھ واضح کیا۔ پچھلے سال بین الاقوامی طور پر کساد بازاری تھی اور سارے کاروباری لوگ تجارت میں مندی سے پریشان تھے۔ نسیم صاحب نے کراچی میں اپنے ایک دوست کو فون کیا اور مشورہ مانگا کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے۔ وہاں سے مشورہ ملا کہ بچوں کو خوراک دینے والی ٹیوب مارکیٹ سے اٹھالو۔ نسیم صاحب نے ہر ہول سیلر سے یہ ٹیوب خرید لئے۔ بازار میں فی ٹیوب ان دنوں بارہ روپے کے نرخ سے دستیاب تھا۔ نسیم صاحب نے پشاور کی مارکیٹ سے تمام ٹیوب خریدنے کے بعد صوبے کے دوسرے شہروں سے بھی اپنے کارندوں کے ذریعے سے کوشش کرکے تمام ہول سیلروں کے سٹور خالی کردیے۔
ظاہر ہے بارہ روپے ٹیوب اگر ایک لاکھ بھی خریدے جائیں تو بارہ لاکھ روپے ہی ہوئے نا! جب ہسپتالوں میں اس ٹیوب کی کال پڑی تو اس کی قیمت بڑھنے لگی۔جب اس کی قیمت اٹھار ہ روپے ہوگئی تو نسیم صاحب نے اپنے دوست کو کراچی فون کیا اور اجازت چاہی کہ سٹاک بیچ لیا جائے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے سختی سے منع کیا کہ نہیں ابھی انتظار کیا جائے۔خیر، دو ہفتے کے بعد قیمت بڑھتے بڑھتے چوّن روپے تک پہنچ گئی تو کراچی سے مشورہ ملا کہ اب بیچ دو۔ چنانچہ نسیم صاحب نے سارا مال ایک ہی دن بازار میں پہنچا دیا۔ ایک ٹیوب میں بتیس روپے کا منافع !!! گویا تقریباً تین سو فیصد منافع دو تین ہفتوں میں حاصل کیا۔
میں نسیم صاحب کا منہ تکتا رہا، نہ کوئی تاسف نہ کوئی شرمندگی، نہ اس ماتھے پر شکن جس پر محراب بنے ہوئے تھی، اور نہ اس چہرے پر افسوس، جس پر ریش کا نور چار سو پھیلا ہوا تھا۔نسیم صاحب ان کا اصلی نام نہیں۔ لیکن کیا ہوا۔ ہمارا ہر دوسرا شخص نسیم صاحب ہی تو ہے کیونکہ اب ذخیرہ اندوزی کوئی برائی نہیں رہی‘یہ کاروبار کا طریقہ ہے۔ اس میں کیا شرم۔ اگر ضمیر پر کوئی بوجھ بنا بھی تو دو ایک خیرات کرکی، چند بیواؤں کو کیمرے کی نگاہ میں چند چیک دے کر، یتیموں کا ادارہ بنا کر یا کوئی ہسپتال قائم کرکے ہٹا دیا۔
رند کے رِند رہی، ہاتھ سے جنت نہ گئی
آپ ذرا یہ احادیث تو پڑھ لیں جو میں نے گزشتہ رات انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہیں: ’’جس شخص نے مال روکا تا کہ اس کی قیمت بڑھ جائی، وہ گنہ گار ہی‘۔
جو شخص ذخیرہ اندوزی کرے وہ بدکار ہی، جب قیمتیں بڑھتی ہیں تووہ خوش ہوتا ہے اور جب قیمتیں گھٹتی ہیں تو وہ ناخوش ہوتا ہی‘ ’جو (تاجر) مال فروخت کیلئے بازار میں لاتا ہے اس پر رحمتیں ہیں اور جو مال روکتا ہے اس پر لعنت ہی‘’ جس شخص نے مسلمانوں کا مال اس نیت سے روکا کہ اس کی قیمت بڑھی، تو اس کو اللہ قیامت کے دن آگ میں اٹھائے گا‘۔ان احادیث میں نہ صرف ذخیرہ اندوزی کی تفصیل سے وضاحت ہوئی ہے بلکہ اس کی ناپسندیدگی کا مقام بھی بتایا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ نماز تو پنجگانہ باجماعت ادا کرتے ہیں لیکن اللہ کی لعنت اور قیامت کی آگ بھی خوشی خوشی سے خریدتے ہیں۔ نسیم صاحب اللہ کی راہ میں ہسپتال بناتے ہیں لیکن خدا اور رسولؐ کے نزدیک گناہ کئے جاتے ہیں۔
رمضان میں تراویح میں ختم القرآن کا بندوبست کرنے والے اسی مقدس مہینے میں یہ بدکاری بھی کرتے ہیں۔اگر اس کے بعد بھی ہم پر خدا کا عذاب نازل نہ ہو تو کیا ہو۔مسلمانوں کی تاریخ جود و سخا سے بھری ہوئی ہی‘ یاد کریں جب مدینہ میں قحط پڑ گیا تھا‘ غلے کی کمی تھی‘جو تھا وہ یہودیوں کے قبضے میں تھا اور مہنگے داموں فروخت کررہے تھی‘ اس دوران حضرت عثمانؓ کا (غالباً)ایک ہزار اونٹوں کا غلے سے بھرا قافلہ آن پہنچا‘ سارے تاجر ان کے گرد جمع ہوگئے کہ تازہ تازہ مال خرید کر گاہکوں تک پہنچادیں‘ تاہم حضرت عثمانؓ نے انہیں بیچنے سے انکار کر دیا ‘ کیونکہ جو منافع وہ دے کر خریدنا چاہ رہے تھی، حضرت عثمانؓ اس سے زیادہ منافع چاہ رہے تھے ‘ لوگوں نے منافع بڑھانا شروع کیا اور خرید کی دوگنی قیمت تک آ گئے ‘ لیکن آپؓ نے پھر بھی انکار کیا۔
اس کے بعد آپؓ نے اللہ کی راہ میں سارا مال لٹا دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کے بدلے ستر ہزار دینے کا وعدہ کیا ہی‘ ہے کوئی جو مجھے اتنا منافع دی؟میری یہ مراد نہیں کہ ہمارے بزنس مین اپنا سارا مال خدا کی راہ میں لٹا دیں لیکن اتنا تو کریں کہ جب دوسرے اپنا مال روکیں تو یہ اپنا گودام عوام کو پیش کریں ‘ بے شک اپنا منافع شامل کرلیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر یہی تاجران اپنے ایسوسی ایشن کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سارے ممبران اس قبیح حرکت سے باز آئیں۔ ملک کے اندر اخلاقی قدریں بنانا بھی حکومت کا کام ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ذخیرہ اندوزی کو اتنا بڑا جرم بنا یا جائے کہ ہر چھوٹے بڑے تاجر کو کسی قسم کا تجارتی مال بھی اس نیت سے جمع کرنے پر شرم آئی‘سول سوسائٹی اور مختلف این جی اوز کو بھی یہ بیڑا اٹھا نے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں زلزلے جیسی ایمرجنسی سمجھ کر عوام کی تربیت کی مہم چلائیں‘ تبلیغ کے ادارے فی الحال عبادات پر زور دینے کی بجائے اس قوم کو اچھے انسان بنانے کی مہم پر نکلیں‘میڈیا کی مختلف جہتیں ’ہفتہ انسانیت ‘ منائیں۔
مختلف مساجد اس رمضان میں خصوصی طور پربھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے لئے شبینے کا بندوبست کریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس ماہ تراویح میں ہر رات ایک بزنس مین اٹھ کر اعلان کرے کہ اس کے گودام میں جتنا مال ہے وہ کل قیمت خرید سے دو یا پانچ فیصد زیادہ پر بیچے گا۔ میں بغیر منافع کے بیچنے کی بات نہیں کررہا۔ اپنا جائز منافع ضرور کمائیں۔ پھر ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ان کا سٹاک جلدی ختم ہوگا تو اسی رقم سے اور مال اپنی دکان میں ڈال لیں گے۔ جدید بزنس کا تو اصول ہی یہی ہے کہ کم منافع کے ساتھ زیادہ بیچو تو نہ صرف ساکھ بڑھے گی بلکہ آمدن بھی بڑھے گی۔دن بھر میں ایک بوری چینی بیچ کرایک ہزار روپے کمانا اچھا ہے کہ دس بوریاں بیچ کر پانچ ہزار کمانا۔ دولت کی گردش اسلام کا بنیادی اصول ہی‘دولت کا جمود معاشرے کیلئے زہر ہے