محمد اعجازتنویر
یہ انٹرویو چند برس قبل مرحوم عطاالرحمن باڑی، بانی حسین حبیب کارپوریشن، سے ’دی ریٹیلر‘ میگزین کے لئے لیا گیا تھا، باڑی صاحب نے کمال شفقت سے اپنی زندگی کی یہ کہانی سنائی، اس میں ہمارے لئے بالخصوص آگے بڑھنے کی خواہش مند افراد کے لئے بہت سے اسباق موجود ہیں جو بہترین کامیابیوں سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ ادارہ
یہ اگست کا مہینہ تھا اور سال 1947ء کا۔ دہلی ائیرپورٹ پر ایک خاندان پاکستان جانے کے لئے جہاز پر سوار ہو رہا تھا، ان کے ساتھ ایک پانچ برس کا بچہ بھی تھا جو مسلسل روئے جارہاتھا۔ دراصل مسافر زیادہ تھے اور سیٹیں کم، بچہ اور اس کا باپ بھی سیٹوں کے بغیر سفر کرنے پر مجبور تھے۔ جہاز کے انگریز کپتان نے باپ سے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی اور پھر اپنا اختیاراستعمال کرتے ہوئے بچے کو ماں کی گود میں بیٹھنے کی اجازت دیدی۔
اس بچے کا نام عطاء الرحمن تھا جسے آج دنیا عطاالرحمن باڑی کے نام سے جانتی ہے۔ آگے بجھانے کاسامان اور آلات بنانے اور بیچنے والی کمپنی حَسِین حبیب کارپوریشن کے بانی۔پاکستان میں جب بھی آگے بجھانے والے شعبہ کا ذکر چھڑتاہی، پہلا نام ہے حَسِین حبیب کارپوریشن کا سامنے آتاہے۔ عشروں کے اس سفر میں ان کے جوڑ کی کوئی اور کمپنی قائم نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہی کارکردگی سے مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ نمبر ون پوزیشن ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ان کی زندگی بالخصوص کاروباری زندگی کی داستان بہت پرلطف اور ولولہ انگیز ہے۔ سن اور پڑھ کر انسان کے ذہن میں زندگی میں ترقی کرنے کے جذبات مچلنے لگتے ہیں۔
جانب عطاء الرحمن باڑی نے اپنی زندگی کی مزیدکہانی یوں سنائی:’’ جہاز پنڈی اترتا ہے۔ ہم جاکر اندرون شہر ایک مکان میں رہتے ہیں۔ اسی زمانہ میں مجھے یاد ہے کہ ہم گڑ اور شکر کے ساتھ روٹی کھایاکرتے تھے۔ تمام وقت گھر میں ہی گزرتاتھا۔ امی جان بستروں کی چادروں سے کپڑے سی کر ہمیں پہنایا کرتی تھیں۔سردیوں میں اوورکوٹ، نیچے جراب درجراب پاجامہ، اس کے اوپرگرم پاجامہ یا پتلون، ہاتھوں میں دستانی، سرپر مفلر یا کنٹوپ( یادونوں) پہننا ناگزیرہواکرتا تھا۔ گیس یا بجلی کے ہیٹرز کا رواج نہیں تھا۔ لحافوں میں گھس کر چلغوزی، مونگ پھلیاں اور ابلے ہوئے انڈے کھانے کا مزہ اسی موسم میں آتا تھا‘‘۔
’’ حفظ قرآن کے لئے پیسہ اخبار لاہور میں حافظ محمد اسماعیل(مرحوم) کے مدرسہ میں داخل کرایاگیا اور دس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مکمل کرائی۔اس دوران ماسٹر زلف علی صاحب گھر پر ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحت ، عافیت اور تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ ان کی علمی قابلیت کے علاوہ ان کا تحمل اور برداشت کاپہلو ہمیشہ قابل تعریف رہا۔حفظ قرآن کے بعد مرحلہ سکول میں داخلہ کا تھا۔ مسلم ماڈل سکول اس زمانہ میں سرفہرست تھا۔ ایم اے عزیز صاحب مرحوم اس کے ہیڈماسٹر تھے۔ اچھے سکولوں میں داخلہ کا مسئلہ اس زمانہ میں بھی سنگیں ہی ہوتاتھا۔عزیز صاحب کو بتایاگیاتھا کہ بچہ حافظ قرآن ہے۔ انھیں یہ بات بڑی عجیب لگی کہ اتنی سی عمر میں اتنی بڑی فضیلت!!! انھوں نے فرمائش کی کہ سورۃ رحمان سنائو۔ سنی اور شاباش دی اور سکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ بھی دیدیا‘‘۔
عطاء الرحمن باڑی اُس زمانہ کے لاہور کی یادیں بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں: ’’اس زمانہ کی… بلکہ بہت بعد تک کی بھی… انارکلی مجھے یاد ہی، گاڑیاں گنتی کی ہوتی تھیں۔ ٹانگے ہی زیادہ چلتے تھے۔ ٹانگے والے ہم بچوں کو زبردستی ٹانگہ میں بٹھاتے تھے کہ خالی ٹانگہ کا پولیس والے چالان کردیاکرتے تھے۔ کافی عرصہ انارکلی میں ٹریفک دورستہ رہی۔ پھر چھ چھ ماہ کے لئے یک طرفہ ٹریفک کا رواج ہوا یعنی چھ ماہ نیلے گنبد سے لوہاری دروازہ کی طرف ، پھر اگلے چھ ماہ لوہاری سے نیلے گنبد کی طرف۔ اس کے بعد مستقلاً نیلے گنبد سے لوہاری تک ہوگئی۔ اب تو کسی سواری میں انارکلی سے گزرنا خاصا دشوار طلب کام ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کے چندسالوں تک انارکلی میں قومی تہوار بڑے باوقار طریقہ سے منائے جاتے تھے۔4اگست کو شوکت مارکیٹ انارکلی کے اوپرہال میں قرآن خوانی ہوتی تھی۔تمام دکاندار اوران کے بچے شریک ہوتے تھے۔بچوں میں مٹھائیاں تقسیم ہوتی تھیں۔ شکرانے کے نفل پڑھے جاتے تھے۔ شوکت مارکیٹ کے ہال ہی میں انارکلی ٹریڈ ایسوسی ایشن بھی تقاریب کا اہتمام کرتی تھی‘‘۔
’’ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ خاموشی سے کالج گئی، فارم لیا، پری میڈیکل کے لئے پُرکیا، جمع کرایا، کچھ دن بعد لسٹ لگی۔ اس میں دسواں نمبرتھا۔ آکرگھر والوں کو بتایا، فیس جمع کرائی۔ نہ کوئی شور نہ کوئی شرابا، نہ کوئی سفارش نہ کوئی پریشانی۔ ایف ایس سی میں اتنے نمبر نہیں آئے کہ لاہور کے کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج میں داخلہ مل سکتا۔مجبوراً بی ایس سی کی، نتیجہ پھر بھی وہی رہا۔ میراخیال ہے کہ میٹرک کے بعد میرا پری میڈیکل میں داخلہ بھی اسی نظام کی جھلک تھی جہاں ماں باپ اپنے بچوں کے ذریعہ اپنے تشنہ خوابوں کی تعبیر دیکھناچاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ڈاکٹربن جائی، انجینئر بن جائی، سول سروس میں آجائے۔ بچہ کا اپنا رجحان کیاہی؟ اس کاخیال نہیں کیاجاتا‘‘۔
سن964ء ، یہ وہ سال ہے جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم کیا۔ اس وقت تک بزنس ایڈمنسٹریشن کا مضمون پاکستان میں متعارف نہیں ہواتھا۔ پبلک ایڈمنسٹریشن میں جو مضامین پڑھائے جاتے تھے ان میں اکثر وہی تھے جو آج کل بزنس ایڈمنسٹریشن میں پڑھائے جاتے ہیں۔یہ شعبہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے تعاون سے قائم کیاگیاتھا اور ہماری کلاس اس ڈیپارٹمنٹ کی اولین کلاس تھی۔ شروع میں تدریسی سٹاف بھی امریکنوں پرمشتمل تھا۔ بعدمیں ڈاکٹرافضل شعبہ کے سربراہ مقررہوئے۔ یہ وہی ڈاکٹرافضل ہیںجوجنرل ضیاء الحق کی حکومت میںوزیرتعلیم بنے۔انھوں نے دوباتوں پر ہمیشہ زوردیا:
اوّل: سرکاری ملازمت کی بجائے کاروباری دنیا کارخ کرو۔
دوم: سپیشلائزیشن کی طرف خصوصی توجہ دو۔
ایم پی اے کے دوران دوکام ایسے تھے جنھیں میں فخریہ بیان کرسکتاہوں۔ ایک میرا ریسرچ پیپر جس کا موضوع تھا، کیادکانوں کے بند ہونے اور کھلنے کے اوقات یکساں ہونے چاہئیں۔ یہ ایک تحقیقاتی سروے پر مشتمل رپورٹ تھی۔ اس زمانہ (963-64ئ) میں اکثردکانیں صبح صبح کھلتی تھیں اور رات گئے تک کھلی رہتی تھیں۔ اکثردکانداروں کا کہناتھا کہ ہم ایک دوسرے کی ضد میں اتنی دیرتک بیٹھے رہتے ہیں، اگرسب دکانیں ایک ہی وقت کھلیں اور بند ہوں تو یہ مقابلہ بازی ختم ہوجائے گی اور ہم لوگ بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارسکیں گے۔ یہ مقالہ یونیورسٹی کی طرف سے محکمہ لیبر اینڈسوشل ویلفئیر کو بھی بھجوایا گیا۔
میرا دوسرا فخریہ کام میراتھیسس بعنوان’’ پاکستان میں انکم ٹیکس کے عوام‘‘ تھا۔ دیگر امور کے ساتھ میں نے خودتشخیصی نظام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ تجویز پرکافی مفصل بحث کرتے ہوئے اس سروے میں محکمہ انکم ٹیکس کے افسران ، انکم ٹیکس وکلاء، دکانداروں ، کاروباری افراد اور دیگرمتعلقہ لوگوں کی آراء بھی شامل کی گئی تھیں۔
اس زمانہ میں پاکستان کے لئے یہ تصور نیاتھا اور یہ رپورٹ بڑے اعزاز کی بات تھی۔ یہ رپورٹ یونیورسٹی کی طرف سے انکم ٹیکس کے افسران کو بھجوائی گئی تھی اور یہ کہاجاسکتاہے کہ خود تشخیصی نظام کی طرف یہ پہلا سنگ میل تھا‘‘۔
’’ مطالعے میں میرا پہلا انگریزی ناول ہیرالڈ رابن کاarpet Baggersتھاجس کا موضوع کارپویٹ کلچر تھا۔اس کے بعد میں نے ہیرالڈ رابن کے تقریباً سبھی ناول پڑھے اور سب ہی میں مرکزی خیال کسی نہ کسی بڑی انڈسٹری اور کمپنیوں کے اندرچلنے والی اٹھاپٹخ کے گردگھومتاہے۔ میرے دوسرے پسندیدہ ناول نگاروں میں آرتھرہیلی، سڈنی شیلڈن اور جیفرے آرچر شامل ہیں۔ان کے ناولوں میں بھی بنیادی خیال کارپوریٹ سیٹ اپ ہی ہوتا ہی، سٹاک ٹریڈنگ، بورڈروم کی لڑائیاں، کمپنیوں کی قانونی موشگافیاں، بڑی بڑی کمپنیوں کاآپس میں ٹکرائو، ملین اور بلین ڈالرز کی باتیں، کمپنی ایگزیکٹوز کے طور طریقے۔ ان ناولوں سے مجھے بہت ترغیب ملی‘‘۔
’’ سکول کے دنوںسے ہی میرا یہ معمول ہوتاتھا کہ فارغ اوقات میں، میں دکان چلاجاتاتھا۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ اس تمام عرصہ میں مجھے والدمحترم جناب حبیب الرحمن باڑی کی رہ نمائی حاصل رہی اور میں بڑے فخر اور وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ کاروباری زندگی میں وہی میرے سب سے بڑے اتالیق اور رہبر تھے۔ جو سبق اس درس گاہ میں ، میں نے سیکھے وہ یونیورسٹی کی درسی کتابوں میں نہیں ملتی‘‘۔
’’ ایم پی اے کی ڈگری ملنے کے بعد مجھ سمیت اکثرکلاس فیلوز نے سی ایس ایس کا امتحان دیا لیکن میری طبیعت کارجحان تھا کہ کوئی کاروبار کیاجائے اور کاروبار بھی وہ جو خاندانی کاروبار سے ہٹ کرہو۔ لیکن وہ ہوکیا؟ اس کو ئی واضح خاکہ نہیں تھا۔ تصور کچھ ایسے تھے کہ امپورٹ ہو، ایکسپورٹ ہو، اچھا سا آفس ہو، غیرملکی تجارت ہو اور بیرون ملک دورے ہوں۔ یہ کیسے ہوگا؟ اس کا میرے پاس فوری جواب نہیں تھا‘‘۔
’’سی ایس ایس کا امتحان ختم ہوتے ہی میں نے ایک علیحدہ دفتر قائم کرلیا۔ دفتر کیاتھا، انارکلی لاہور میں رحمت مارکیٹ کی دوسری منزل پر×0فٹ کا ایک کرایہ کاکمرہ تھا۔500روپے میرے پاس تھے۔500روپے کا ٹیلی فون خریدا اور000کی ایک میز،کرسیاں اور ایک دری۔کاروبار کے لئے نام بھی چاہئیے تھا۔ میں نے حسین حبیب کارپوریشن منتخب کیا۔ اس میں حسین میری والد کے نام کا جزو تھا اورحبیب میرے والد کے نام کا۔ایک طرح سے یہ ایک بیٹے کا اپنے مشفق ومہربان والدین کے لئے خراج عقیدت بھی تھا اورخاموش انتساب بھی۔ ’حسین حبیب‘ یہ نام اس زمانہ میں مجھ پر سجتابھی تھا، جوانی بھی تھی، سرکے بال بھی پورے تھی، آنکھوں میں چمک بھی تھی اورچہرے پر دمک بھی ۔ یہ وہی زمانہ تھا جس کے متعلق کہاگیا ہی:
لبوں پہ گیت تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
کبھی کتابوں میں ہم بھی گلاب رکھتے ہیں
کبھی کسی کاجوہوتاتھا انتظار ہمیں
بڑاہی شام وسحر کاحساب رکھتے ہیں
اکثرلوگ جنھیں اس پس منظر کا پتہ نہیں ہوتاتھا، یہی کہہ کر تعارف کراتے تھی، یہ ہیں عطاالرحمن باڑی۔ حسین بھی ہیں اور حبیب بھی‘‘۔
’’یہ بات ہے جنوری 1965ء کی، میں نے دوسرے ملکوں میں پاکستانی سفارت خانوں کو خط لکھنے شروع کئے۔ پاکستان میں جو غیرملکی سفارتی مشن تھے ان سے رابطہ کیا۔ یہ سب کچھ میں تنہا ہی کررہاتھا۔ میں ہی ٹائپسٹ تھا، میں ہی ڈائری کلرک، میں ہی مینجر اور میں ہی چیف ایگزیکٹو۔چپڑاسی بھی کوئی نہیں تھا۔ آفس کی صفائی بھی خود کرنی پڑتی تھی۔ ون مین شو کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آئی‘‘۔
’’ ایک سال اسی طرح گزرگیا اور میں اب بھی خواب دیکھ رہاتھا لیکن جاگتی آنکھوں سے۔ میرے پاس ایم پی اے کی ڈگری تھی، بے شمار خواہشات تھیں، کچھ کرگزرنے کی لگن تھی۔مستقبل کے حوالے سے کچھ نئے خاکے ترتیب پاچکے تھے۔ کوشش یہی تھی کہ کسی طرح برک تھرو مل جائی‘‘۔
’’ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں، عملی طورپر کچھ نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں مگرخواب نہیں دیکھتے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خواب بھی دیکھتے ہیں اور عملی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ میری خواہش بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہونے کی تھی‘‘۔
’’ اسی اثنا میں میرا سی ایس ایس کا نتیجہ بھی آگیا۔ کامیاب امیدواروں کی فہرست میں میرا نام بھی تھا۔ لیکن ڈاکٹرافضل کی نصیحت اور ہیرالڈ رابن کے ناولوں کے کرداروں نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں کاروبار ہی جاری رکھوں۔ میرے آفس کے اوقات کار 9بجے سے بجے تک تھے۔ میں اب اس قابل ہوگیاتھا کہ ایک ملازم رکھ لوں جو چپڑاسی بھی تھا اور تھوڑی بہت ٹائپنگ بھی کرلیتاتھا۔ پانج بجے کے بعد میں والدصاحب کی دکان پر چلاجاتاتھا جہاں رات کے 9،0بج جاتے تھی‘‘۔
’’ پھر کراچی کی دو انڈنٹنگ کمپنیوں نے مجھے لاہور کے لئے اپنی سب ایجنسیز دیدیں۔ انڈنٹ ہونے والی اشیا میں سٹیشنری، کاغذ، کارک شیٹ، سوٹ کیس، لاک وغیرہ شامل تھے۔ مجھے اپنے طورپر بھی پولینڈ کی ایک کمپنی کی فوٹوگرافک فلم اور پیپر کی ایجنسی مل گئی۔‘‘
’’دوسال گزر گئی، میری شادی ہوگئی۔ سلطانہ کی اور میری منگنی کو چاربرس گزرچکے تھے۔ البتہ ’کورٹ شپ‘ کا عرصہ کچھ طویل ترتھا۔ یہ 1967ء کی بات ہے۔ حالات ابھی اطمینان بخشن نہیں تھے۔ ہنی مون کے اخراجات ہم برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہمیں اسے ملتوی کرنا پڑا لیکن اب میں تنہا نہیں تھا۔سلطانہ اور میں دونوں مل کر سپنے بنتے تھی، پلاننگ کرتے رہے ،ہائی ڈرائیو کے اور ایڈونچر کے خواب… ہم نے خاموش عہد کیاتھا کہ والدین سمیت کسی کی بھی مدد نہیں لیں گے۔‘‘
’’تیسراسال شروع ہوا۔ موسموں کی سختی برقراررہی، دوست احباب اسے حماقت ہی کہتے تھے کہ خاندانی کاروبار کو چھوڑ کر سی ایس سی کو نظرانداز کرکی، میں ایک نئی دنیا بنانے کی کوشش کررہاتھا۔ وہ روزوشب واقعی بڑے کٹھن تھے۔ اس کٹھن دورمیں ماں باپ حوصلہ دیتے تھے یا پھر سلطانہ امید کے چراغوں کو روشنی رکھتی تھیں۔‘‘
’’ایک واقف ھال کرم فرما نے اپنی کمپنی میں 450روپے ماہانہ پر اسسٹنٹ مینیجر کی جگہ پیش کی۔ یہ وہی تنخواہ تھی جو اس زمانہ میں سی ایس ایس کرنے کے بعد شروع میں ملتی تھی۔ میں نے سوچنے کے لئے 15دن کا وقت مانگا۔ پھر ایک موڑآیا، ڈیڈ لائن سے صرف دو دن پہلے جب میں نے یہ فیصلہ کرناتھا کہ اپنی جدوجہد جاری رکھوں یا نئی نوکری پر چلاجائوں۔ میرے ماموں اقبال احمد صاحب کراچی سے آئے اور انھوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن کے لئے کراچی جاکر ان کے دفترمیں بیٹھوں اور یہ دیکھوں کہ ان کی فیکٹری میں بننے والے ریشمی کپڑے کی ایکسپورٹ مارکیٹ میں کیاگنجائش ہے۔ ان کی اس پیش کش نے میرا فیصلہ آسان کردیا۔ ‘‘
’’میراخیال ہے کہ ہرشخص کی زندگی میں ایسے مواقع ضرور آتے ہیں جب تسلی کے چند لفظ، حوصلہ افزائی کے چندبول، ڈولتے ہوئے لمحات میں کوئی سہارا، تذبذب کی حالت میں کوئی صحیح مشورہ، درست وقت پر کسی غلط فیصلہ کو تبدیل کرانا زندگی کا رک پھیردیتے ہیں۔ اس نازک وقت میں ماموں کا ذرا سا سہارا میری زندگی کا رخ ہی تبدیل کرگیا۔میں صدق دل سے ماموں کا شکرگزار ہوں۔‘‘
’’ایسا ہی ایک اورلمحہ اس سے بھی چند سال پہلے آیاتھا جب میں نے بی ایس سی میں نمبرکم آنے پر اور میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے پر، دل برداشتہ ہوکرپڑھائی چھوڑنے کا فیصلہ کیاتھا۔ اس وقت والدمحترم نے پوری شدت سے اس فیصلہ کی مخالفت کی تھی اور مجھے سمجھانے کے لئے اپنے دوست خیل الرحمن ایڈووکیٹ(اب ریٹائرڈجسٹس) کو مامورکیاتھاجنھوں نے مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی اور کامیاب رہے۔‘‘
’’ لوگ درست کہتے ہیں کہ کاروبار کے شروع کے تین سال بہت کٹھن ہوتے ہیں۔ جوانھیں جھیل جائے وہ آخرکارکامیاب ہوہی جاتاہے۔ ماموں جان کے کہنے پر میں کراچی گیا، کچھ دن لگائی، ایکسپورٹ میں کچھ کام کیا، واپس آیا، پھر اور راستے بھی کھلتے گئے۔‘‘
’’ اب ہمارا اصل کاروبار ہماری پہچان آگے بجھانے کا سامان ہے۔اس طرف ہم کیسے آئی؟ یہ سوال اکثر لوگ مجھ سے کرتے ہیں۔965ء کی جنگ شروع ہوئی تو لاہور فائربریگیڈ کے انچارج شبیراحمدخان صاحب نے ایک محفل میں باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ پاکستان میں آگ بجھانے کا سامان نہیں ملتا۔ وہاں سے مجھے سوچنے کا موقع ملا اور ایک نئی کاروباری لائن بھی۔ یہاں میری تعلیم کام آئی۔ میں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں جو سبق مارکیٹنگ ریسرچ ، پبلک ریلیشنز کے حوالہ سے پڑھے تھی، انھیں عملی زندگی میں استعمال کیا اور ان سے بھرپور استفادہ کیا‘‘۔
’’آج کل توفائر اینڈ سیفٹی خاصا معروف موضوع ہے اور کافی لوگ اس شعبہ میں کاروبار کررہے ہیں۔ تاہم آج سے تقریباً چالیس سال پہلے جب میں نے اس کاروبار کی ابتداء کی تھی تو کوئی اسے پتھر کا اچارکہتا تھا اور کوئی دیوانے کا خواب۔‘ ہم نے اس کو متعارف کرانے کے لئے پہلے خود پڑھا، پھرپڑھایا، لٹریچر منگایا، چھپوایا، تقسیم کرایا۔ سیمینار منعقد کئی، نمائشوں کا اہتمام کیا، انعامی مقابلے کرائی، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، ان کو اپنے ہاں بلایا۔ ہم فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں فائراور سیفٹی کا شعور بیدار کرنے میں ہماری کاوشیں بڑی بھرپور رہی ہیں۔‘‘
’’968ء میں میرے چھوٹے بھائی عتیق الرحمن باڑی بھی گریجویشن کرنے کے بعد میرے ساتھ شامل ہوگئے اورپارٹنرشپ کی بنیاد پر کچھ سرمایہ فراہم کیا۔ حالات مزید بہتر ہوگئے۔ ہم نے اپنا دفتر نکلسن روڈ لاہور پر منتقل کرلیا، کراچی میں برانچ کھول لی۔وہاں کی ذمہ داری عتیق الرحمن صاحب نے سنبھالی اور بہت عمدگی کے ساتھ۔ لاہور سے وہ نام اور کام لے کر گئے تھے۔ ایک نئے شہر میں انھوںنے نہایت تن دہی ، جانفشانی اور بصیرت کے ساتھ کاروبار کو مستحکم کیا۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ہمارے کاروبار کی بنیادوں میں ان کی محبت، لگن، تدبر اور فراست بھی شامل ہے۔‘‘
’’ 1977ء میں ہم نے پارٹنرشپ کو لمیٹڈ کمپنی کی شکل دی۔ پھر پنڈی کی برانچ قائم ہوئی۔ اپنی مینوفیکچرنگ بھی شروع کی۔ پہلے ایک چھوٹی سی جگہ پھر اس سے بڑی جگہ اورپھر اس سے بھی بڑی جگہ۔ کرایہ کے دفتر سے نکل کر نکلسن روڈ پر ہی اپنی نوتعمیر شدہ عمارت میں منتقل ہوئی( وہی اب ہمارا ہیڈآفس ہی)۔‘‘
کارباری سفر کا احوال سننے کے بعد ہم نے جناب عطاالرحمن باڑی سے سیفٹی کلچر کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی، کہنے لگی:’’ اگر آپ ایک سروے کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے ہاں آگ لگنے کا بڑا سبب بیڈ ہائوس کیپنگ ہے ۔ یعنی مثال کے طور پر چیزوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے نہیں رکھا جاتا۔ جیسا کہ وہ سامان جو جلدی آگ پکڑلیتا ہی، اسے آگ سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔اس طرح کے مال میں پلاسٹک اور کپڑے وغیرہ سرِ فہرست ہیں ۔اس کے علاوہ ایک اور بات سیفٹی کلچر سے متعلق اہم اور غورطلب ہی…ہم عموماً جب کچن بناتے ہیں تو اس پر لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں ۔ جبکہ محض چند ہزار روپے کا فائرفائٹنگ Equipmentنہیں لگاتے ۔ کچن میں مندرجہ ذیل چیزیں ضرور موجود ہونی چاہیں :
فائرایڈ باکس
Small Fire Extangushir
Fire Blanket
Smoke Dedector
آپ یہ سن کر حیران ہوگے کہ مندرجہ بالا تما م آلات میں سے کسی ایک کی بھی قیمت 1000سے 1500روپے سے زیادہ نہیں ہے ۔
ہم نے پوچھا کہ آگ سے جل جانے والوں کو کیا کسی خاص طبی امدا د کی ضرورت ہوتی ہی؟ جواب ملا’’ جی ہاں ۔ اس کے لئے عموماً برن سنٹر لے جایا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں بس تین یا چار ایسے ادارے ہیں ۔ان میں بھی پلاسٹک سرجری کی سہولت میسر نہیں ۔ حکومت کو فوری طور پر برن سنٹرز کے قیام پر توجہ دینی چاہیئے اور کم ازکم ہر بڑے علاقے میں ایک برن سنٹر ضرورقائم کرنا چاہئے ‘‘۔
جناب باڑی سے پوچھاگیا کہ ان کے خیال میں معاشرے کا کون سا طبقہ فائرفائٹنگ اینڈ سیفٹی سے متعلق شعور پیدا کرنے کا ذمہ دا ر ہی؟ کہنے لگی:’’میرے خیال میں سب ہی ذمہ دار ہیں ! حکومتی ادارے اپنے طور پر قوانین بنائیں اور ان پر عمل درامد کو یقینی بنائیں۔ مثال کے طور پر تعمیرات کرنے والے عمارتوں میں میں باقاعدہ Exit رکھیں ۔بلکہ اکژ عمارتوں میں ہنگامی Exit ہوتا ہی نہیں ہی،اور اگر کہیں موجود ہے بھی تو اُس راستے کو مختلف رکاوٹیں کھڑی کر کے یا تالا لگا کر بند کر دیتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کی ضرورت تو کبھی پڑنی ہی نہیں ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو Emergency Exitبند ہونے کی صورت میں جانی نقصان اٹھاتے ہیں ‘‘۔
حالیہ ہو نے والے بڑے آتشزدگی کے واقعا ت مثلاًایل ڈی اے اورمشرق سینٹر میں جوکچھ ہوا، ان کی بابت کہا کہ ان کی ذمہ داری بھی صرف حکومت پر عائد نہیں ہوتی… بلکہ ہم سب ذمہ دار ہیں ! حکومت کی تو مجبوری ہے ۔ فیکٹریاں بہت زیادہ ہیں اور کام کرنے والے بہت کم ۔صرف حکومت کو موردِالزام ٹھہرانا زیادتی ہوگا۔ہاں! حکومت نے ریسکیوکے ادارے بنا کر کسی حد تک یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جن میں Rescue 112 سرِفہرست ہے اوراس کے علاوہ پوری دنیا میں ایک سسٹم ہے جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ میڈٰیاکا الگ کردار ہی، کیمونٹی کا الگ، چیمبرکا الگ اور انڈسٹری کاالگ۔
مثلاً کہیں آگ لگ جانے کی صورت میں میڈیا محض مرچ مسالہ لگا کر اس کی کوریج ہی نہ کرتا رہے بلکہ کسی بھی ایسے واقعہ کے بعد کو ئی ایسی ڈاکومنٹری بھی نشر کرے جس میں فائرفائٹنگ سے متعلق معلومات مل سکیں ۔ اس کے علاوہ بھی وقفے وقفے سے معلوماتی پروگرام نشر ہونے چاہیں ‘‘۔
’’اس کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی بھی ذمہ داری ہے بچوں میں فائرسیفٹی ایجوکیشن کا بندوبست کرے۔ اس سلسلے میں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباء میں Awareness Programsکئے جائیں جس میں انھیں ویڈیوزدکھائی جائیں ، پریزنٹیشنزدکھائی جائیں اورجہا ں ممکن ہو وہاں فائرفائٹنگ کی عملی تربیت دی جائے ۔ کمیونٹی کی کوششوں کی ایک بہت ہی اعلیٰ مثال بحریہ ٹائون اسلام آبادکا اپنا فائرسٹیشن کا قیام ہے ۔ جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے علاقے بلکہ باہر ہونے والے حادثات میں فوری ریسکیو فراہم کرتے ہیں۔ چیمبراس سے متعلق ورکشاپس اور ٹریننگز منعقد کروائے جس سے لوگوں کو آگاہی اورعملی راہنمائی میسر آسکی‘‘۔
ہمار ایک سوال تھا کہ کیا ہمارے صنعتی اداروں کی طرف سے بھی ایسی کوئی کوشش کی گئی؟
’’ جی ہاں …سُندر اور کوٹ لکھپت میںصنعتی اداروںکی مشترکہ کوششوں سے ایسے چھوٹے فائرسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں لیکن کئی بڑے صنعتی علاقے جیسے کراچی ،لاہور ، فیصل آباد ،گوجرانوالہ اور ملتان ابھی تک اس سے محروم ہیں‘‘ ۔ پھر محرومی کی وجہ بھی بتائی’’ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ انڈسٹریاںکوشش کرتی ہیں لیکن معاملہ تب کھٹائی میں پڑ جاتا ہے جب ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ فائربریگیڈکی گاڑی اس کی کمپنی میں کھڑی ہوگی۔ اور بات وہیں ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں مشترکہ نقصان ! صنعتوںکے مالکان کو چاہئے کہ مشترکہ سوچ اپنائیں اور انڈسٹریل ایریازمیں چھوٹے فائرسٹیشنز قائم کریں‘‘ ۔
’’کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اور حل ہے جس سے انڈسٹریزمیں لگنے والی آگ پر قابو پانے میں خود انڈسٹری کوئی کردار ادا کرسکتی ہی؟ ‘‘
’’جی ہاں …میں عموماً یہ تجویز دیتا ہوں کہ ہر کمپنی دس ہزار گیلن کا ایک فاٹر ٹینک بنا لے ۔ اس طرح آگ بجھانے والی گاڑی کو بار بار دوبارہ بھرنے کے لئے کہیں دورنہیں جانا پڑے گا ۔ عموماًفائربریگیڈ میںدوہزار گیلن پانی کی گنجائش ہوتی ہے ۔اس طرح فائربریگیڈکو وہیں پانچ مرتبہ ’ری فل‘کیا جا سکتا ہی‘‘۔
ہم نے پوچھا’’ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کمپنی میں فائرفائٹنگ Equipmentموجود ہونے کے باوجود آگ لگ جاتی ہے اور لاکھوں کا نقصان ہو جاتا ہے ۔اس کی کیا وجہ ہی؟‘‘ جناب باڑی گویا ہوئی’’ جناب! بات یہ ہے کہ فائرفائٹنگ Equipmentکا ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا استعمال بھی آنا چاہئے ۔ اس کے لئے باقاعدہ عملی مشق کرانے کی ضرورت ہے ۔ نہ صرف عملی مشق بلکہ کمپنی میں فائرفائٹنگ کے عملے کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے ‘‘۔
ہم نے پوچھا’’ کوئی کمپنی کیوں فائرفائٹنگ Equipmentخریدے ؟ یا کیوں فائرفائٹنگ کرائے جبکہ اس میں بہت زیادہ خرچ ہوتا ہی؟‘‘
جواب ملا’’ عموماً مالکان کو معلوم نہیں ہوتا کہ اگر ان کی کمپنی میں فائرفائٹنگ Equipmentsموجود ہوں گے تو انشورنس کراتے وقت ان کو مندرجہ ذیل حد تک ڈسکائونٹ مل سکتا ہے :
ٓاگر Fire Extangusherہوتو 5%
اگر Hydrandt Systemہوتو5%
اگر Spray Systemہوتو 52%
ہمارا اگلاسوال تھا کہ کیا کوئی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن ہے جو فائرفائٹنگ کے لئے ہو؟ کہنے لگی’’ ’’SO-9001‘‘ Quality Management کے لئے جبکہ’’SO-14001‘‘nviromental Management سے متعلق ہے ۔
پوچھا’’ کون سا ملک اس وقت فائرفائٹنگ میں سب سے آگے ہی‘‘؟
کہنے لگی’’ برطانیہ اس وقت دنیا میں سب سے آگے تصور کیا جاتا ہے اور ہم پاکستان میں بھی اسی کے معیارات کو سامنے رکھتے ہیں‘‘۔
ہم نے پوچھا’’ ویسے تو حسین حبیب کارپوریشن نے کئی اہم کا م کئے ہیںمگر کوئی ایک بہت ہی خاص کام بتائیی؟‘‘
کہنے لگے ’’ہمارا ایک بہت ہی اہم کام سیفٹی سائن پوسٹرزکا بنانا تھا ۔ اس میں ہم نے تمام DOsجس میں وہ تمام کام جو آگ سے پچنے کے لئے کرنے چاہیں ،شامل ہیں۔ جیسی’’ شعلہ پکڑنے والے کیمیائی مادے آگ سے دور رکھیں‘‘ ۔اور تمام DON’Tsشامل ہیں مثلاً’’آگ بجھا نے والے آلا ت کے سامنے کوئی اور چیز نہ رکھیں‘‘۔ اس سے ہمیں انڈسٹری میں شعور پھیلانے میں مدد ملی‘‘۔
آپ کی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو آپ کبھی نہ بھول سکیں گے ؟
’’والد مرحوم اکثرکہاکرتے تھے کہ تمہارا کاروبار بے شک وسیلہ رزق ہے لیکن چاہو تو اسے اللہ کی رضا کا ذریعہ بھی بناسکتے ہو اور فلاح دارین کا سبب بھی۔ سن971کا زمانہ تھا ۔ ہم پر جنگ مسلط تھی ۔ قحط کا عالم تھا ۔ ہم ملک کا واحد ادارہ تھے جوفائرفائٹنگ میٹریل رکھتے تھے ۔ بلیک آئوٹ کا زمانہ تھا۔ میںبڑی مشکلوں سے اندھیرے میں ٹرک لوڈ کراتا تھا۔اس دور میں اگر میں چاہتا تو پیسے کئی گنا زیادہ کما سکتا تھا ۔ لیکن میں نے قیمت نہیں بڑھائی اور ملک کی خدمت کی ۔ اور مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ میر ا یہ عمل شایدآخرت میں میری بخشش کا سبب بن جائی‘‘ ۔
پوچھا آپ کو زیادہ خوشی کس وقت ہوتی ہی؟ کہنے لگے ’’جب سفر کرتے ہوئے یاکسی محفل میں پاس بیٹھنے والا مجھ سے پوچھتاہے کہ آپ کا شغل کیاہی؟ میںکہتاہوں کہ میری کمپنی آگ بھجانے کا سامان بناتی ہے تو وہ شخص کہتاہی: حسین حبیب تونہیں؟ یہ لمحہ میرے لئے واقعی خوشی کا ہوتا ہی‘‘۔
کاروبار زندگی کے دوران ملنے والے اسباق جاننا چاہے تو کہا’’ہردوسرے شعبہ زندگی کی طرح Survival of the fittest کا ہمارے کاروبار میں بھی اطلاق ہوتاہے۔ لوگ سچ کہتے ہیں کہ کسی بلندی پر پہنچنا مشکل کام لیکن وہاں ٹھہرے رہنا اور زیادہ مشکل ہے۔ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے آپ کو ہردم سوچتے رہناپڑتاہے۔ کہ اس کے بعد کیا؟ ہمارے ساتھ یہی ہوتاہے کہ ہم کوئی نئی چیز بناتے ہیں، متعارف کراتے ہیں، اس کے لئے محنت کرتے ہیں، دو تین سال اس کا پھل کھاتے ہیں اس کے بعد اور لوگ ہماری تقلید میں آجاتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس کوئی نئی آئٹم، نیاآئیڈیا تیار ہوناچاہئے۔ کاروبار ایک آب رواں کی طرح ہے۔ کہیں ٹھہرجائے تو سڑاند آنے لگتی ہی، خوب صورتی اس کے بہائو میں ہی ہی‘‘۔
پھر یہ بھی کہا’’آپ کا کاروبار جتنا وسیع ہوتا جائے گا، اتنا ہی آپ کو اپنے ستف پر اور ساتھیوں پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرناپڑے گا۔ خواہ مخواہ کے شکوک وشبہات آپ کو نہ صرف ذہنی بیمار بنادیں گے بلکہ آپ کے کام کی صلاحیت کو بھی متاثر کریں گے۔ میرا ہیڈآفس لاہور میں ہے اور میری کمپنی کی شاخیں کراچی، پنڈی، کوئٹہ اور پشاور میں ہیں۔ وہاں جو استاف ہی، ان کو کاروبارچلانے کے لئے کچھ اخراجات کرنے ہوتے ہیں اور کچھ دینا دلانا بھی ہوتاہے۔ اب اگرمیں یہ سوچ لوں کہ دور کسی برانچ میں میرامینیجر ہیرا پھیری کررہاہے جبکہ میرے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ بداعتمادی کی یہ فضا میرے لئے بھی اور میرے کاروبار کے لئے بھی نقصان دہ ہوگی‘‘۔
ایک اچھے کاروباری انسان کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ ایک اچھے کاروباری انسان مین سننے کا حوصلہ اور سیکھنے کا سلیقہ ہو۔ ایک اچھا کاروباری ہرقدم پر سیکھتاہے۔ اپنے گاہکوں سی، اپنے ملازمین سی، اپنے حریفوں سی، اپنے گھر والوں سے۔ کاروباری دنیا جو اتنی بہت سی رقم مارکیٹ ریسرچ پر خرچ کرتی ہے تو اس کا بنیادی مقصد یہی ہوتاہے کہ تعریف اور تنقید دونوں آپ کے سامنے ہوں اور جو تبدیلیاں ضروری ہیں انھیں بروئے کار لایاجائی‘‘۔