عبیداللہ عابد
یہ 2004ء کی بات ہے، تھائی لینڈ کا ایک لڑکا ’ٹوپ‘ دارالحکومت بنکاک کے ایک بنک میں داخل ہوا۔ اس نے بنک افسر سے کہا کہ اسے اپنے کاروبار کے لئے 10ملین بات(تھائی کرنسی) قرضہ چاہئے۔یہ رقم قریباً تین کروڑ روپے پاکستانی کے برابر بنتی ہے۔ بنک افسر اس کی درخواست سن کے ہنس پڑا۔ اس نے سوچا کہ بچہ اس کے ساتھ مذاق کررہا ہے۔چنانچہ اس نے اس کی بات سنی ان سنی کردی۔ دراصل بنک افسر کو علم نہیں تھا کہ یہ لڑکا اپنے کاروبار سے ماہانہ دس لاکھ بات کما رہا ہے۔ لڑکا کچھ دیر تک بنک افسر کے ساتھ گفتگو کرتا رہا تاہم بنک افسر اسے قرض دینے پر تیار نہ ہوا۔سبب اس کے کاغذات مکمل ہونے یا نہ ہونے کا نہیں تھا، اس کی انکم سٹیٹمنٹ کے اچھے یا برے ہونے کا سوال بھی نہیں تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ لڑکا بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، اس نے محض ہائی سکول تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور اس کی عمر صرف 19برس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قرض لینے کا اہل قرار نہ پایا۔
چند برس قبل، ہائی سکول میں پڑھتے ہوئے لڑکا اچھا طالب علم ثابت نہ ہوسکا تھا۔وہ اپنی سٹڈی پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ ہر وقت آن لائن گیمز ہی کھیلتا رہتا تھا۔ اسے ایک آن لائن گیم ’’ Everquest‘‘ بہت زیادہ پسند تھی۔ وہ یہ گیم روز ہی کھیلتا تھا۔ نتیجتاً سکول میں اس کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی۔ البتہ گیمز کی دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس دنیا میں اس نے وہ سب کامیابیاں سمیٹ لی تھیں ، دوسرے لوگ جن کے صرف خواب دیکھا کرتے تھے۔ آن لائن گیمز کی دنیا میں وہ اس قدر مشہور ہوا کہ دنیا بھر سے آن لائن کھلاڑی اس سے رابطہ کرنے لگے۔ چنانچہ اس نے گیم آئٹمز فروخت کرکے کمائی شروع کردی۔ اس کے زیادہ خریدار کھلاڑیوں کا تعلق امریکہ سے تھا۔ ہائی سکول میں رہتے ہوئے اس نے دوبرسوں کے دوران اچھی خاصی رقم جمع کرلی۔ وہ آن لائن گیمز فروخت کرکے ماہانہ ایک لاکھ سے دولاکھ بات تک کما رہا تھا۔ اس نے رقم جمع کرکے ایک بالکل نئی کار خرید لی۔ ہائی سکول سے فارغ ہونے کے بعد اس نے سترہ برس کی عمر میں ’یونیورسٹی آف چیمبر آف کامرس آف تھائی لینڈ‘ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں بھی وہ اپنی سٹڈی پر توجہ نہ دے سکا۔پھر اس کی زندگی میں ایک موڑ آگیا جس نے اس کی زندگی کو ایک نیا انداز عطا کیا۔ایک روز اس کی جیب بالکل خالی ہوگئی۔ اس نے اپنی والدہ سے پیسے مانگے۔ اس کی ماں دس منٹ تک اس کے لئے پیسے تلاش کرتی رہی۔تب اس نے سوچا کہ اسے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔
اسے معلوم تھا کہ اس کے والدین غلط جگہ پر سرمایہ کاری کرنے کے سبب دیوالیہ ہوچکے ہیں۔جس گھر میں وہ رہتے تھی، وہ کسی بھی وقت نیلام ہوسکتا تھا۔ والدین پر چار کروڑ بات(2کروڑ روپے پاکستانی) قرضہ چڑھ چکا تھا۔ اب وہ سوچ رہے تھے کہ انھیں مستقلاً اپنے آبائی وطن چین واپس چلے جانا چاہئے کیونکہ اب تھائی لینڈ میں زندگی گزارنے کے لئے کچھ باقی نہیں بچا تھا۔یہاں قرض واپس لینے والوں نے ان کی زندگی مشکل بنادی تھی۔ لڑکا جانتا تھا کہ اسے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ بالآخر اس نے اپنی گیم آئی ڈی ایک معقول رقم کے عوض فروخت کردی۔اب وہ زیادہ وقت اسی سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے گزارتا تھا کہ پیسہ کیسے کمایا جائے تاکہ وہ والدین کا سہارا بن سکے اور پڑھائی سے جان چھڑا سکے۔ اس کے سامنے متعدد آئیڈیازآئے جو اسے مالی مشکلات سے باہر نکال سکتے تھے۔ مثلاً وہ فوڈ پوائنٹ بھی بنا سکتا تھا۔ یونیورسٹی کیمپس کے سامنے ایک چھوٹی کافی شاپ بھی کھول سکتا تھا۔ اس نے کچھ چیزیں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اس نے بڑی تعداد میں سستے داموں سی ڈی پلئیر خریدے لیکن وہ انھیں زیادہ فروخت نہ کرسکا کیونکہ یہ ہلکے معیار کے تھے جو آسانی سے ٹوٹ جاتے تھے۔
سن 2003ء میں ایک روز اسے بنکاک کے شمالی علاقے میں ایک بین الاقوامی کاروباری میلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ گھوما پھرا، جاپانی ’چیسٹ نٹ فرنچائز‘ کے سٹال پر گیا، سٹاف سے فرنچائز لینے کی بابت معلومات حاصل کیں، پتہ چلا کہ فرنچائز کے لئے مشینری کا پورا سیٹ خریدنا بہت مہنگا ہے۔ چنانچہ اس نے سٹاف سے صرف چیسٹ نٹ روسٹر خریدنے کی بات کی۔عموماً جب کوئی تجارتی میلہ ختم ہوتا ہے تو اس میں سٹال لگانے والے آخر میں اپنا سامان اونے پونے فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ واپسی پر انھیں کم سے کم بوجھ اٹھانا پڑے۔نتیجتاً لوگ میلے کے عین آخری لمحات میں غیرمعمولی رعایت پر سامان حاصل کرنے کے لئے سٹالز کا رخ کرتے ہیں۔’ٹوپ‘ نے بھی میلے کے آخری لمحات سے فائدہ اٹھایا اور روسٹر مشین گھر لے آیا۔ اب اس نے اپنی فرنچائز کھولنے کے لئے سوچنا شروع کردیا۔ اس نے خود ہی چیسٹ نٹ روسٹ کرنا اور پھر انھیں ایک سپرمارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے اس سے پہلے کبھی کچھ فروخت کرنے کے لئے کوئی چیز روسٹ کی تھی نہ ہی پکائی تھی۔
بعدازاں اس نے ’بگ سی سپرمارکیٹ‘ میں کچھ جگہ خریدی، ایک ملازم رکھ لیا اور چیسٹ نٹ فروخت کرنا شروع کردئیے۔ابتدائی چند ہفتوں کے دوران چیسٹ نٹ بہت کم فروخت ہوئے حتیٰ کہ بعض ایام ایسے بھی گزرے کہ یہ بالکل فروخت نہ ہوئے۔ کسٹمرز کی طرف سے شکایات آئیں کہ اس کا مزہ بہت خراب ہے۔ چنانچہ اس نے چیسٹ نٹ کے کاروبار کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں۔ وہ فریش مارکیٹوں میں گیا، چائنہ ٹائون اور ویک اینڈ مارکیٹوں میں پہنچا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ لوگ کیسے روسٹ کرتے اور بیچتے ہیں۔ وہ چپکے سے تکنیک، اس میں شامل کئے جانے والے اجزا اور دیگر اہم باتیں نوٹ کرتا رہا اور اپنے کام کو بہتر بناتا رہا۔ اب اس کے روسٹ کئے ہوئے چیسٹ نٹ کا ذائقہ بھی بہتر ہوا۔ اگلے چار یا پانچ ہفتوں میں اس کے چیسٹ نٹ تیزی سے فروخت ہونے لگے۔اب اس نے اپنے اسی کاروبار کو پھیلانے کا سوچنا شروع کردیا۔اس نے اپنے اکلوتے ملازم سے کہا کہ جس روز اس کی سیل پانچ ہزار باتھ ہوئی ، اسی روز وہ اپنے کاروبار کی ایک فرنچائز کھولے گا۔ اس طرح 20سٹینڈز لگائے گا تو اسے روزانہ کے ایک لاکھ باتھ ملیں گے۔اگلے ڈیڑھ برس کے دوران اس نے 30فرنچائزز فروخت کیں۔ اب اس کا کاروبار اسے دس لاکھ بات ماہانہ دینے لگا۔
جب وہ فرنچائزر بنا، اس کی عمر محض 18برس تھی۔ عین اسی وقت اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی۔اس کا کاروبار اس قدر کامیاب تھا کہ وہ صرف چیسٹ نٹ ہی روسٹ کرکے فروخت کرتا رہتا تو وہ کامیابی کی مزید منازل طے کرتا چلا جاتا۔تاہم اس نے اب فیصلہ کیا کہ وہ صرف چیسٹ نٹ تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ چنانچہ اس نے سنیکس کو بھی اپنے کاروبار میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جلد ہی اسے معلوم ہوا کہ صرف چیسٹ نٹ ہی تیزی سے فروخت ہونے والی چیز نہیں ہی، فرائیڈ سمندری گھاس تو بہت مزے کی ہوتی ہے اور بہت زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ جب اس نے فرائیڈ سمندری گھاس کو کاروبار کا حصہ بنایا تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی شئے یہی ہوتی تھی۔ اسے اس پراڈکٹ کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں تھا کیونکہ وہ اسے چائنہ ٹائون کے ہول سیلرز سے خرید کر فروخت کردیتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ سفر پر گیا، دوران سفر اس کا دوست فرائیڈ سمندری گھاس کھاتا ہی رہا۔ اس نے سوچا کہ اس میں کچھ ایسا ہے کہ لوگ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔پھر اس نے فرائیڈ سمندری گھاس کے مزید پیکٹ خریدی، یہ فروخت کرنے کے لئے نہیں تھے۔ اس نے مختلف لوگوں کو دئیے اور ان سے رائے معلوم کی، سب نے کھایا اور بہت پسند کیا۔ پھر اس نے مارکیٹ کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی فرائیڈ سمندری گھاس کو ریٹیل میں فروخت نہیں کررہاتھا۔اس کا صرف ہول سیل ہی میں کاروبار ہورہا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اس کے کاروبار کی سمت کرکری فرائیڈ سمندری گھاس کی طرف ہوگئی۔ اس نے چھوٹے پیکٹوں میں اسے فروخت کرنا شروع کردیا۔جلد ہی اس نے اسے خود ہی فرائی کرنا شروع کردیا۔ اس کے لئے وہ یونیورسٹی کی لیبارٹری کے پاس گیا، ٹیکنیکل سٹاف سے ملا، پوچھا کہ سمندری گھاس کو کس طرٖ ح طویل عرصہ کے لئے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اب اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اسے کیسے فرائی کیاجاسکتا ہی، اس کے پاس پراڈکٹ موجود تھی اور وہ اسے تیزی سے اور بڑے پیمانے پر فروخت کرنا چاہتا تھا۔ اسے چیسٹ نٹ کے سٹینڈ پر فروخت کرنا بہتر نہیں تھا کیونکہ پہلے ہی 30 سٹینڈز پر کوالٹی اینڈ کنٹرول مشکل ہورہاتھا۔ وہ سمندری گھاس کو ایک مختلف انداز میں فروخت کرنا چاہتا تھا۔
پھر ایک روز وہ بنکاک کی ویک اینڈ مارکیٹ میں گھوم پھر رہا تھا، اس نے دیکھا کہ کچھ گرل سکائوٹس ایک جگہ پر قطار میں کھڑی ہیں، گا رہی ہیں اور ان لوگوں سے چندہ مانگ رہی ہیں جو مارکیٹ کے ٹوائلٹس استعمال کرنے کے لئے آتے ہیں۔ ٹوپ کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ لڑکیاں مارکیٹ کے ٹوائلٹس کے سامنے کیوں کھڑی ہیں اور انھیں یہاں گھن بھی نہیں آرہی ہے۔تھائی لینڈ میں تین سکے دے کر عوامی ٹوائلٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ٹوپ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ان لڑکیوں کو بلا جھجھک سکے دے رہے ہیں۔اسی مقام پر سڑک کی دوسری طرف بھی گرل سکائوٹس کا ایک گروپ کھڑا تھا تاہم انہیں کوئی کچھ بھی نہیں دے رہا تھا۔حالانکہ ان کے پاس سے بھی بہت سے لوگ گزر رہے تھے۔اس نے سوچا کہ یہ عجیب معاملہ ہی، پھر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ وہاں فنڈ دے رہے ہیں جہاں انھیں خیرات دینے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم اگلے ہی چند لمحوں میں وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچا کہ لوگ خیرات نہیں دے رہے۔ جو کچھ وہ دے رہے ہیں، وہ خیرات سمجھ کر نہیں دے رہے ہیں۔ دراصل یہ اس ’جگہ‘ کا کمال ہے۔ عوامی ٹوائلٹس کے سامنے کھڑی گرل سکائوٹس کو اس لئے زیادہ فنڈ مل رہا ہے کہ وہاں لوگ پہلے ہی کچھ نہ کچھ ادائیگی کررہے ہوتے ہیں۔ ٹوائلٹ میں داخل ہونے سے پہلے ان کاہاتھ سکے نکالنے کے لئے جیب میں جاتا ہے۔ ان کی جیب میں اچھے خاصے سکے ہوتے ہیں۔ وہ ٹوائلٹ کے لئے ادائیگی کردیتے ہیں لیکن جب وہ ٹوائلٹ سے فارغ ہوکرباہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کی جیب میں سکے موجود ہوتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ کیوں نہ یہ ان چھوٹی بچیوں کو دیدئیے جائیں۔
ٹوپ نے اس منظر سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اچھی کمائی کے لئے اچھی جگہ نہایت ضروری ہے۔ اگر وہ ایسی جگہ پر کاروبار کرے گا جہاں لوگ خریدنے کے لئے تیار ہوں تو اچھی کمائی ہوسکتی ہے۔ اگر وہ مزید اچھی جگہوں کو اپنے کاروبار میں شامل کرے گا تو اسے مزید آمدن ہوگی۔ جب سے اس نے لچھے دار فرائیڈ سمندری گھاس تیار کرنا شروع کی، اسے ایک ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں لوگ جائیں، خریدیں اور اچھے انداز میں کھائیں۔ جہاں لوگ خریداری کی خاطر بھری ہوئی جیبوں کے ساتھ آتے ہیں، وہ جگہ ’ سیون الیون‘ کے سٹور ہی تھے۔ سن004ء میں تھائی لینڈ کے سٹورز کی تعداد تین ہزار تھی، سن 2012ء میںان کی تعداد چھ ہزار ہوچکی ہے۔
بہرحال اگلے چند روز بعد وہ ’ سیون الیون‘ کے دفتر پہنچ گیا اور اس نے اپنی پراڈکٹ پیش کی۔ اس وقت ایک فرد کے لئے ایسے کسی بھی دفتر میں جانا اور فروخت کے لئے اپنی پراڈکٹ پیش کرنا بہت آسان تھا۔ اب ایک فرد کے لئے ایسا ممکن نہیں، اسے کہا گیا کہ اسے ایک کمپنی قائم کرنا ہوگی، جسے رجسٹرڈ کرانا ہوگا اور ایک مکمل منصوبہ پیش کرنا ہوگا۔
ٹوپ نے ’سیون الیون‘ کے پراڈکٹ مینیجرز سے ملاقات کی۔ اس کی ’ فرائیڈ سمندری گھاس کو ٹیسٹ کیا گیا، اس کا تجزیہ کیا گیا اور پھر اسے اگلے مرحلے کے لئے منظور کرلیا گیا تاہم ٹوپ سے کہا گیا کہ وہ پیکنگ اور قیمت میں تبدیلی کرے۔ ’سیون الیون‘ کے سٹاف نے ٹوپ کو ہدایات بھی دیں کہ اسے مزید کیا کچھ کرنا چاہئے۔ انھوں نے اسے کہا کہ ہم پورے 30دن بعد آپ کی فیکٹری کا دورہ کریں گی،آپ کی پروڈکشن لائن اور عمل کو دیکھیں گی، آپ کی پراڈکٹ کے معیار اور حفظان صحت کے اصولوں کا جائزہ لیں گے۔ اس کے چند روز بعد بتائیںگے کہ یہ فرائیڈ سمندری گھاس ’سیون الیون‘ پر فروخت ہوسکتی ہے یا نہیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹوپ 19برس کا تھا۔ اس کی کوئی فیکٹری نہیں تھی، نہ کوئی ملازم تھا اور نہ ہی پروڈکشن لائن ایسی کسی چیز سے وہ واقف تھا۔ اس سے اگلے روز ٹوپ قرضہ حاصل کرنے کے لئے بنک جاپہنچا لیکن وہاں سے ناکام واپس پلٹا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بڑے پکے انداز میں بیٹھ چکی تھی کہ ’سیون الیون‘ تک رسائی دنیا کے ہر کام سے زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ اس نے ’چیسٹ نٹ‘ کا اپنا سارا کاروبار فروخت کردیا حتیٰ کہ اس سے متعلقہ سارا سازوسامان بھی۔ اس وقت چیسٹ نٹ کا کاروبار اسے ماہانہ دس لاکھ بات دے رہا تھا۔ جب اس کے ہاتھ میں رقم آئی ، اس نے اپنے والدین کے ایک چھوٹے سے پرانے گھر کی مرمت وغیرہ کرکے اسے فیکٹری میں بدل دیا۔ اس گھر کی ابھی تک نیلامی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ہمسائیوں میں سے پانچ ، چھ افراد کو یہاں ملازمت کے لئے رکھ لیا۔
سیون الیون والے آئے ، انھوں نے فیکٹری اور اس میں پروڈکشن کے عمل کا جائزہ لیا اور چلے گئے۔ اگلے چند روز بعد اسے ’سیون الیون‘ کی طرف سے فون کال موصول ہوئی، انھوں نے کہا کہ وہ فرائیڈ سمندری گھاس اپنے ہاں فروخت کریں گے۔ اب وہ ٹوپ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ بھی یہاں اپنا مال فروخت کرنے کے لئے راضی ہی؟ اگر وہ راضی ہے تو اگلی5دن میں 72000 پیکٹ فراہم کری، یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے سیون الیون سٹورز پرفروخت ہوں گے۔ یوں ٹوپ نے پہلی شپمنٹ سیون الیون کو بھیج دی۔ اگلے تین مہینوں میں پورے ملک میں سیون الیون سٹورز پر فرائیڈ سمندری گھاس فروخت ہورہی تھی اور اگلے دو برس بعد یہ سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرف برآمد ہو رہی تھی۔ تین برس بعد ٹوپ ایک کروڑ کا مالک بن چکا تھا۔ یہ سن011ء کی بات ہے۔ فرائیڈ سمندری گھاس سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن ڈیڑھ ارب تھی۔ اس وقت یہ پراڈکٹ امریکہ، برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے 19ممالک میں ایکسپورٹ ہونے لگی تھی۔ ٹوپ تھائی لینڈ کا سب سے کم عمر سیلف میڈ ارب پتی بن چکا تھا۔ محض 26 برس کی عمر میں اس کی دولت ایک ارب بات تھی۔یادرہے کہ اس وقت تھائی لینڈ کے سب سے امیر شخص کے پاس 220ارب بات تھے۔
جب آپ اتنا کچھ پڑھ چکے ہیں تو ٹوپ کی مشہور زمانہ پراڈکٹ کانام بھی جان لیں۔ یہ ہی: ’تائوکائی نوئی‘، اس کا مطلب بھی بہت دلچسپ ہی:’’ ایک کم عمر کروڑ پتی‘‘۔ اس نے یہ نام کیوں اور کیسے رکھا، یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ایک روز وہ چیسٹ نٹ فروخت کرکے آیا ، اس کے کان میں اس کے والد کی آواز پڑی جو اپنے ایک دوست سے مذاق میں کہہ رہے تھے :’’ میرا بیٹا سب سے کم عمر کروڑ پتی بنے گا، کیا تم یقین کرو گی؟‘‘ جیسے ہی اس نے یہ جملہ سنا، اس کے ذہن میں یہ خیال جم گیا کہ ’’سب سے کم عمر کروڑ پتی‘‘ ہی اس کے برانڈ کا نام ہونا چاہئے۔
اس ساری کہانی سے ہم دو سبق حاصل کرسکتے ہیں:اول:ٹوپ نے ترقی وخوشحالی سے عشق کیا اور پھراپنے منصوبوںپر عمل بھی کرکے دکھایا۔ جب اس کے سامنے ایک آئیڈیا آیا تو وہ بیٹھا نہیں رہا اور نہ ہی اس کے بارے میں خیالی پلائو پکاتا رہا۔ وہ باہر نکلا اور اس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے لگا۔
دوم:ڈسٹری بیوشن دوسرا سبق ہے۔ ٹوپ نے اچھی جگہوں کا انتخاب کیا اور وہاں بھی کاروبار شروع کیا۔
آغاز میں سیون الیون نے اسے اپنی ڈسٹری بیوشن کی شرائط پر موقع فراہم کیا، اس نے کیا کرنا تھا، صرف اچھا معیار دینا تھا اور پھر بنکاک کے شمالی علاقے میں سیون الیون کے وئیرہائوس تک شپمنٹ پہنچانی تھی۔ اگلی صبح اس کی پراڈکٹ پورے ملک کے 76شہروں تک پہنچ چکی تھی۔پراڈکٹ جیسی بھی معیاری ہو، کامیابی کااصل دروازہ ڈسٹری بیوشن ہے۔ٹرانسپورٹیشن کی ساری ذمہ داری سیون الیون کے سر تھی۔ یہی طاقت تھی جس کے بل بوتے پر ٹوپ نے اپنی دولت میں غیرمعمولی تیزی کے ساتھ اضافہ کیا۔
اب آپ کا خیال ہے؟