عصرحاضرکا ایک آئیڈیل مسلمان تاجر

محمد اعجازتنویر

میں نے ایک جگہ کامیابی کا ایک فارمولا پڑھا تھا کہ غوروفکر کیجئے ، ایک اچھا اور قابل عمل آئیڈیا سوچیں، پھر کوشش کریں، پھر کوشش کریں، پھر کوشش کریں، کوشش کرتے رہیں، یقین کریں کہ اس کے بعد آپ کوکامیابی مل جائے گی۔ یہ فارمولا پڑھنے کے بعد جب بھی سنی فلورملز والے حاجی محمد عبداللہ کے متعلق سوچا تو یہ فارمولا سچا لگا۔ گزشتہ دنوں یہ حاجی صاحب بھی اس دنیا سے کوچ کرگئے، ان سے میری ملاقات غالبا µ 2002ءکے شروع میں ہوئی جب ان کے بیٹے واجد عبداللہ سوئزرلینڈ سے ’فلورملنگ‘ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے ہوئے تھے۔ نفیس باڑی صاحب کی بوساطت حاجی صاحب سے ہونے والی یہ ملاقات میری کاروباری زندگی کے آغاز میں ایک خوشگوار اور یادگار ملاقات ثابت ہوئی۔ ان کے سامنے مختلف چیلنجز تھے، انھیں ایک طرف ہول ویٹ کے برانڈ کو روایتی ہول سیل ڈسٹری بیوشن سسٹم سے ناتا توڑ کر جدیدایڈونس بکنگ ڈسٹربیوشن سسٹم سے کم ازکم اخرجات کے ساتھ جوڑنا تھا۔ دوسری طرف امپورٹیڈ فوڈ کے ہلکے پھلکے کام کے ساتھ آٹے کے ٹرن اوور کے کاروبار کو بھی چلانا تھا، یہ ایک مشکل کام تھا۔ یعنی فیئر مارکیٹنگ میں دو الگ سیلز ٹیموں نے ساتھ ہی ساتھ نظام کو چلانا شروع کیا۔ تاہم ان تمام تر مشکلات اور چیلنجز کے ساتھ ہی ساتھ جوش وجذبہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ حاجی صاحب نے بیٹے واجد عبداللہ کی تعلیم اور مشاہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مل چکی آٹے کوجدید انداز کے ساتھ مارکیٹ میں پیش کیا، ایک ایسے ماحول میں جب لاہور سے اسلام آباد تک ہرجگہ گرینز(Granins) ہول فلور میں نمبر ون تھا ۔

حاجی محمد عبداللہ کی شخصیت میرے لیے نعمت تھی کیونکہ جب میں نے نوکری کی بجائے اپنا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا تو عام طور پر مجھ سے وہی باتیں سننے کو ملیں جو بچپن سے سن رکھی تھیں:

1۔ انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہی بڑا کاروبار کیاجاسکتا ہے۔

2۔ سیلز مین شپ کے لیے جھوٹ ضروری ہے ۔

3۔ ملاوٹ کے بغیر زیادہ منافع نہیں ملتا۔

4۔ کاروبار کرنے کے لیے چکر باز انسان زیادہ فٹ رہتا ہے ۔

حاجی محمد عبداللہ سے مل کر ان کی کہانی ان کی زبانی سن کر اور پھر آنے والے برسوں میں ان کے ساتھ وقت گزار کر معلوم ہوا کہ سچ، خلوص اور محنت کے نتیجے میں ہی زندگی میں بہار آتی ہے۔ حاجی صاحب کمال دانا ،سمجھدار اور ذہین انسان تھے ۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا وژنری بزنس مین نہیں دیکھا ۔کامیاب سیلزمین شپ کے لیے میرے غلط تصور کہ جھوٹ کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ حاجی محمد عبداللہ کو صرف اور صرف سچ کے ذریعے سیلزمین شپ کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یقین آیا کہ صرف سچ سے ہی پائیدارکامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ حاجی صاحب صاف گواورنفیس بزنس مین تھے، صاف اور سیدھی بات کرتے تھے ورنہ تو ہمارے ہاں کاروباری طبقہ لوگوں کو بہت چکر دیتاہے، حاجی صاحب ملاوٹ سے نفرت کرتے تھے، ان کا کوالٹی پر یقین کامل تھا۔ اسی بنا پرآج بھی حاجی محمد عبداللہ کا دو شیرمارکہ میدہ مارکیٹ میں زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ اکثر فلورملز والے ایک شیر ،تین شیر ،یا پھر ملتے جلتے برانڈز کے ساتھ مارکیٹ سے زیادہ رےٹ وصول کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر دوشیر کے سامنے ناکام رہے ۔

جب ’سنی فلورمل‘ حاجی صاحب کے پاس آئی، اس وقت تک اس کی صلاحیت چوبیس گھنٹوں کے دوران میں ڈیڑھ سو ٹن کی تھی لیکن حاجی صاحب کی محنت کے نتیجے میں 1973ءمیں اس کی صلاحیت 320ٹن تک پہنچ گئی۔ مجھے حاجی عبداللہ صاحب کے ساتھ اکثر دوپہر کا کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا۔ ایسی ہی ایک دوپہر اور کھانے کی نشست پر میں نے حاجی صاحب سے پوچھا:

حاجی صاحب یہاں تک کیسے پہنچے؟

ان کے چہرے پر کھیلتی معصومیت ہی دراصل ان کے چہرے کا حسن تھا، میرا سوال سن کر وہ مسکرائے اور بولے:”یار! اعجاز!! گرمی دی ایک دعا کام کم آ گئی “ (یعنی گرمی میں مانگی ہوئی ایک دعا کام آگئی)۔ میں تجسس کے عالم مےں ان کے پرنورچہرے کو دیکھنے لگا، پھرکہنے لگے:” میں گوالمنڈی میں آٹے کی ہول سیل کرتا تھا یہ مل 1964 میںایک سرکاری افسر نے بنائی تھی۔ جون جولائی کی گرمی تھی، ایک روز میں اپنے سکوٹر پر مل آیا۔ مل میں گیٹ کے ساتھ ایک انتظار گاہ تھی، وہاں ایک کلرک بیٹھا ہوتا تھا۔ مل کا مالک سرکاری افسر تھا، اس کا ایک نرالا اصول تھا۔ اس انتظار گاہ میں دو بلب لگے ہوتے تھے۔ایک سرخ اور ایک سبز جب مل مالک نے کسی سے نہیں ملنا ہوتا تھا تو سرخ بلب جلا دیتا ۔گرمی شدید تھی اور مجھے ملنا بھی ضرور تھا ۔اس دن میں نے سرخ بلب جلتے دیکھا ۔ میں نے اسی عالم میں اپنے رب سے دعا مانگی:”اے میرے اللہ! مجھے بھی مل دے۔ میں اس طرح انتظار میں مشکل میںہوں“۔ اللہ تعالی کو میری دعا پسند ا ٓگئی، چند روز بعد مل کے مالک نے ’سنی فلور‘ فروخت کرنے کے لیے لگادی۔ 1973میں بلال صوفی کے والد اور ایک پارٹنرکے ساتھ مل خریدلی ۔یہ میری اُس دعا کی قبولیت تھی۔اس کے بعد میں نے اپنے دوسرے پارٹنرز کے ساتھ مل کر خوب محنت کی اور تین ملیں بنائی۔ یوں ہم پارٹنرز الگ الگ ہوگئے“۔

حاجی صاحب اپنی داستان سنا رہے تھے، میں ان کے رب سے تعلق، رب پر یقین اور اظہارتشکر کا انداز دیکھ کر متاثر ہو رہا تھا۔ حاجی صاحب نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی اور انھیں خوب اچھی تعلیم دلائی۔ ان کے بچے بھی انہی کی طرح خدا ترس اور شریف النفس ہیں۔ میرا ان کے ساتھ کئی سال تک کاروباری لین دین رہا۔ گزشتہ دنوں حاجی عبداللہ صاحب کی وفات کی اطلاع جمیل صاحب نے دی ۔میں اس وقت کراچی کے دورے پر تھا۔ میں حلفاً کہہ سکتاہوں کہ حاجی محمد عبداللہ ایک ائیڈیل مسلم تاجرتھے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے۔ آمین

GET THE BEST DEALS IN YOUR INBOX

Don't worry we don't spam

Retailer Pakistani
Logo