محمد اعجاز تنویر
آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم سی پیک کے منصوبے سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لئے آپ کو کچھ دیر کے لئے ایک ایسے ملک میں جانا پڑے گا،جس کی برآمدات آج سے چالیس پینتالیس قبل( ساٹھ کی دہائی میں) پاکستان کی برآمدات سے کہیں کم تھیں لیکن آج اس کی برآمدات کا حجم ہم سے تقریباً دس گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ زندگی کے باقی شعبوں میں بھی دونوں ملکوں کا احوال کچھ ایسا ہی ہے۔ اس ملک کا نام ہے ملائشیاجس کے وژنری وزیراعظم مہاتر محمد نے جب اقتدار سنبھالا تو یہاں بے روزگاری کی شرح سات فیصد تھی جب وہ ایوان اقتدار سے باہر آئے تو یہ شرح 2فیصد رہ گئی تھی۔ سال 2013ء کے اختتام پر ملائشیا کی برآمدات 230.7 ارب ڈالر تک جا پہنچیں جبکہ پاکستان محض پچیس ارب ڈالر تک پہنچنے کے لئے بھی تگ و دو کررہاہے۔ ملائشیا کا رقبہ تین لاکھ0ہزار مربع کلومیٹر جبکہ پاکستان کا رقبہ آٹھ لاکھ 81ہزار مربع کلومیٹر۔پاکستان کی آبادی 20کروڑ 29لاکھ جبکہ ملائشیا کی آبادی محض تین کروڑ 11لاکھ باسیوں پر مشتمل ہے۔بحثیت پاکستانی ہمارے لئے کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے پاس زمین بھی زیادہ ہے اور افرادی قوت بھی زیادہ لیکن اس کے باوجود ہم برآمدات کے شعبے میں ملائشیا سے 200ارب ڈالر پیچھے ہیں۔ یہ تصور فرسودہ ہوچکا ہے کہ جتنی آبادی زیادہ ہوگی، کھانے والے اسی قدر زیادہ ہوں گی، ترقی اور خوشحالی حاصل کرنے والی قومیں ایسا نہیں سوچتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ جتنی آبادی زیادہ ہوگی، کام کرنے والے ہاتھ بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔
ڈاکٹر مہاتر محمد جب ملائشیا کے وزیراعظم بنے تو ملک میں باہمی اختلافات عروج پر تھے جنہیں دور کرنے کے لئے انہوں نے انتھک کوششیں کیں اور ٹھوس اقدامات کئے جن کا نتیجہ آج ساری دنیا کے سامنے ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کے لئے ایک کمال حکمت عملی اختیار کی۔انھوں نے لازمی قرار دے دیا کہ ملائشیا میں کاروبار کرنے والی جس غیر ملکی کمپنی کی تجارت کا حجم پانچ ملین رنگٹ تک پھیل جائے گا وہ ملائشیا کے تاجر کے ساتھ مشترکہ منصوبہ سازی کرے گی جس میں ملائشیا کا تاجر 30 فیصد کا حصے دار ہوگا۔ مہاترمحمد نے یہ سبق رسول اکرم ؐ کی حکمت عملی سے حاصل کیاتھا۔ آپ کو غزوہ بدر کا واقعہ یاد ہی ہوگا جب کفارمکہ کے شکست خوردہ لشکر کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔ رسول اکرم ؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ ان قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے۔ انہیں قتل کرنے سمیت مختلف مشورے سامنے آئے تاہم رسول اکرمؐ نے فیصلہ کیا کہ ہر قیدی ایک مسلمان کو تعلیم دے گا۔ آپ ؐ کے امتی ڈاکٹرمہاترمحمد نے یہ روشنی حاصل کی کہ چینی النسل کاروباری طبقہ مالے قوم کو نہ صرف کاروبار کرنا سکھائے گا بلکہ مشترکہ کاروبار بھی کرے گا۔
اس حکمت عملی سے کئی فوائد حاصل ہوئی:
اول: مالے تاجروں اور چینی النسل تاجروں کے مابین تعلقات قائم ہوئے اور ملائشیا کو نسلی اختلافات بلکہ فسادات سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی۔
دوم: مالے تاجروں کو چینی النسل تاجروں کے کاروباری تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
سوم: ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی میں مدد ملی۔
چہارم: ملائشیا کی حکومت کو اضافی محاصل ملے۔
پنجم: روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔
اس سب کچھ کے نتیجے میں ملائشیا نہ صرف ایشیا میں ایک معاشی ٹائیگر کی صورت میں کھڑا ہوا بلکہ اس کا شمار دنیا کی بہترین معیشتوں میں ہونے لگا۔
اب ایک بار پھر سوچئے کہ ہم سی پیک کے منصوبے سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟ چین دنیا کے معاشی ٹائیگر کی صورت میں کھڑا ہی، وہ ہمارا دوست بھی ہی، ہمارے ساتھ ہر طرح کا تعاون کر رہاہے۔ ایسے میں بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ ہم چینیوں سے ترقی اور خوشحالی کا سبق سیکھیں، ان کی رفاقت اور دوستی کا فائدہ اٹھائیں۔