عبدالمنعم فائز
تجارت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ تجارت کی مخدوش صورت حال میں کسی بھی ملک کی ترقی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ خوش حال تاجر ہی ترقی یافتہ ملک کی ضمانت ہوتا ہے۔ ہردور میں انہی ممالک نے دنیا پر حکمرانی کی ہے جن میں تاجر آسودہ حال تھا۔
سرخ ریچھ سوویت یونین اس وقت تک عالمی طاقت بنا رہا جب تک اس کی معیشت مضبوط رہی۔ آج دنیا کی واحد سپر پاور امریکا صرف اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر ہی چودھراہٹ نہیں جما رہا بلکہ اس کی اقتصادی طاقت اس کی ترقی کا بنیادی عنصر ہے۔ رواں سال پاکستان کا مجموعی بجٹ 43 بلین ڈالر مقرر کیا گیا مگر امریکا کا صرف دفاعی بجٹ 642 ارب ڈالر کا ہے۔ امریکا کا GDP ( مجموعی قومی پیداوار) اس وقت 15 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اس حیرت انگیز اقتصادی ترقی کی وجہ امریکاکا تاجر ہے۔ فوربز میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکا ارب پتیوں کی تعداد میں دنیا بھر میں نمبر ون ہے۔ دنیا میں ایک ہزار 6 سو ارب پتی ہیں ان میں سے چار سو صرف امریکی ہیں۔ اسی اقتصادی ترقی نے امریکا کو دنیا کا بلاشرکت غیرے بادشاہ بنا رکھا ہے۔
تاجر اور تجارت ہر دور میں اہم رہے ہیں۔ صدیوں پہلے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنائی اس کے بعد سوق المدینہ یعنی مارکیٹ قائم کی۔ یہ دنیا کا پہلا ماڈل اسلامی بازار تھا۔ اس بازار میں حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عثمان غنی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بزنس کرتے۔ یہاں کے خریداربھی صحابی اور بیچنے والے بھی۔ مگر اس بازار میں دھوکہ دہی، نقصان رسانی اور ذخیرہ اندوزی نہیں ہوتی تھی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ تمام تاجر شرعی احکام سے بھی واقف ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو بازار میں جاکر تاجروں سے کہتے: یہاں تجارت کرنے وہی آئے جسے شرعی مسائل کا علم ہو۔علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں: پرانے زمانے میں جب تاجر دور دراز علاقوں کا سفر کرتے تو اپنے ساتھ ایک عالم دین کو بھی لے جاتے اور پیش آمدہ مسائل کا حل دریافت کرتے۔ خوارزم کے علماء کہتے ہیں: ہر تاجر کا ایک دوست عالم دین بھی ہونا چاہیے ۔ مگر آج پورے پورے بازار گھوم جائیے، شرعی مسائل سے واقف تاجر بہت کم نظر آتے ہیں۔ ایسے تاجر بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تجارت اور شریعت جدا جدا چیزیں ہیں۔ حالانکہ اسلام وہ دین ہے جس نے عبادت کے ساتھ ساتھ لین دین اور معاملات میں بھی مکمل رہنمائی دی ہے۔ شریعت کا اہم ترین موضوع تجارت ہے۔ شریعہ صرف نماز، روزہ یا حج و زکوۃ کا نام نہیں، بلکہ بزنس بھی اس کی ایک اہم شاخ ہے۔