عبیداللہ عابد
نئے سال دوہزار اٹھارہ کے آغاز ہی میں بعض پاکستانی ذرائع ابلاغ نے خبرشائع کی کہ دنیا کے سب سے بڑے آن لائن کاروباری ادارےعلی بابا نے جنوبی ایشیا کے چار ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور میانمار میں آن لائن بزنس کی سب سے بڑی کمپنی دراز ڈاٹ پی کے(Daraz.pk) خرید لی ہے۔ خبر کے مطابق چینی آن لائن ریٹیلرعلی بابا نے یہ کمپنی ایک سو پچاس ملین ڈالرز یعنی سولہ ارب روپے پاکستانی میں خریدی ہے۔ تاہم چند روز بعد بعض ذرائع نے اس خبر کی تردید کردی جبکہ بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں کمپنیوں کے درمیان اس بابت مذاکرات چل رہے ہیں تاہم ابھی تک ڈیل فائنل نہیں ہوئی ۔
گزشتہ برس مارچ میں پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون نے بھی ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ کیا علی بابا کے مالک جیک ما کی اگلی بڑی خریداری دراز ڈاٹ پی کے ہوگی؟ اخبار نے لکھا تھا کہ جب سے جیک ما نے ایک ارب ڈالر کے عوض لزادا کمپنی خریدی ہے، چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ ای کامرس کی دنیا کے اس دیو کا اگلا شکار کون ہوگا؟ اخبار نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دراز ڈاٹ پی کے کانام لیا تھا کیونکہ جیک ما اپنے کاروبار کو مسلسل پھیلانے میں مصروف ہے۔ وہ بھارت، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور فلپائن میں بھی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ اسی طرح وہ امریکی کمپنی منی گرام کو بھی آٹھ سو اسی ڈالر میں خرید چکا ہے۔ جیک ما کا خواب ہے کہ وہ لاکھوں اشیا فروخت کرنے والا ہو اور لوگ اپنے موبائل فون سے اسے رقم کی ادائیگی کرتے رہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جیک ما اپنے اس خواب کی تکمیل کے لئے دراز ڈاٹ پی کے ہی کیوں خریدے گا؟
چینی حکومت کئی برس پہلے ہی افریقہ میں داخل ہوئی۔ توانائی، کنسٹرکشن اور لاجسٹکس کی بڑی کمپنیوں نے صرف دوہزار چودہ کے ایک سال میں سترارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ اس کے بعد فون بنانے والی اور ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں نے بھی وہاں کا رخ کیا۔ اس وقت Huawei نےنائیجیریا میں ایک ٹریننگ سکول کھولا ہوا ہے جہاں انجینئرز کو سکھایا جارہا ہے، یوں پورے براعظم میں موبائل فون نیٹ ورک کو مضبوط کیا جارہا ہے۔
چین چاہتا ہے کہ وہ پوری دنیا کی تجارت کا مرکز ہو۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے چین ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے تحت چینی انڈسٹریز کا مال وسطی اور جنوبی ایشیا کی سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے ذریعے یورپی دارالحکومتوں تک پہنچائے گا۔ گویا یہ ایک نئی شاہراہ ریشم ہوگی۔
ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ سن دوہزار تیرہ میں چینی صدر شی جن پنگ نے پہلی بار پیش کیا تھا، اس میں دنیا کے پینسٹھ ممالک شامل ہیں، جن کا مجموعی جی ڈی پی دنیا کا ایک تہائی بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس منصوبے میں دنیا کا ایک تہائی سامان اور سروسز بھی لگیں گی۔ چینی حکومت اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کھربوں ڈالرز خرچ کرے گی۔ اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔
نئی شاہراہ ریشم کا اہم ترین حصہ پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار اور سری لنکا ہیں۔ چینی حکومت پاکستان میں پچاس ارب ڈالر لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے لاجسٹکس ، پاور جنریشن، کمیونیکشن لنکس، ہسپتالوں اور سکولوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ گوادرکے گہرے پانیوں تک رسائی اس منصوبے کا سنگ بنیاد ہے۔
گوادر کی بندرگاہ پہلے ہی آپریشنل ہوچکی ہے، چین کو بحرہند تک رسائی دی جاچکی ہے۔ چین نے آبنائے ملاکا اور جنوبی چین کے روٹ کے بجائے گوادر کی گزرگاہ اختیار کی ہے تو اس کی وجوہات سٹریٹیجک بھی ہیں اور تجارتی بھی۔ چین آبنائے ملاکا کے ذریعے جو سرگرمیاں سرانجام دیتا تھا، ان پر امریکی بحریہ گہری نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ نتیجتا چین ایک متبادل راستے کی تلاش میں تھا جو اسے مل چکا ہے۔
سری لنکا میں دارالحکومت کولمبو کے نزدیک چین ہامبنتوتا نامی بندرگاہ بناچکا ہے، اسی طرح بنگلہ دیش بھی باقاعدہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہوچکا ہے، اکتوبردوہزارسولہ میں چینی صدر شی جن پنگ نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا اور توانائی، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں اور میری ٹائم میں باہمی تعاون کے ضمن میں متعدد معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ چینی حکومت نئی منڈیوں تک رسائی کے پروگرام میں آگے سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یہ امر بھی قارئین کی دلچسپی کے لئے بیان کرنا ضروری ہے کہ چین اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیشہ سے برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتا رہا ہے، اب بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔
اب ذرا علی بابا کی بات کرتے ہیں، اس کی کامیابی کی داستان کے پیچھے چینی دیہاتوں کا ایک بڑا جال ہے جنھیں جیک ما نے ای کامرس سے جوڑ دیا ہے۔ وہ کھلونوں سے لے کر الیکٹرانکس تک تیار کرتے ہیں اور انھیں ای کامرس کے راستے فروخت کرتے اور اپنی غربت دور کرتے ہیں۔
چین کی ای کامرس مارکیٹ بہت بڑی ہے، مجموعی ریٹیل سیل میں اس کا حصہ گیارہ فی صد ہے۔ نئی شاہراہ ریشم اس شعبہ کو کہیں کا کہیں پہنچادے گی۔ بالخصوص اپنی ہمسائیہ مارکیٹوں پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار اور سری لنکا میں دراز ڈاٹ پی کے کا قبضہ ہے۔ علی بابا کا ان مارکیٹوں میں ابھی تک باقاعدہ وجود نہیں ہے۔ فی الحال وہ علی ایکسپریس کے نام سے خدمات سرانجام دے رہی ہے تاہم دراز ڈاٹ پی کے اس کی راہ میں حائل ہے، وہ اسے چینی سامان مارکیٹوں میں فروخت کرنے نہیں دے رہی ہے۔ درازڈاٹ کام جرکی میکلسن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، علی بابا کے ہاتھوں دراز ڈاٹ کام کی فروختگی کی خبروں کو مستردکرتے ہیں، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ لزادا میں دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ آج کل وہ اپنا بہت سا وقت چین میں گزارتے ہیں اور اندازہ کررہے ہیں کہ یہاں کی کون سی چیزیں ان کی مارکیٹوں میں فروخت ہوسکتی ہیں۔
درازڈاٹ پی کے نے حال ہی میں لزادا کے سینئر وائس پریذیڈنٹ زین سہروردی کو اپنی کمپنی کا حصہ بنایاہے۔ اب وہ کمپنی کے پاکستان میں آپریشنز کی دیکھ بھال کریں گے، اس کے نتیجے میں جرکی میکلسن خود مجموعی طور پر سٹریٹیجی اور بڑھوتری پر نظر رکھیں گے اور روزمرہ کے معاملات زین سہروردی دیکھیں گے۔ کمپنی نے یہ قدم اس وقت اٹھایا ہے جب دراز ڈاٹ پی کے جرمنی کی کمپنی راکٹ انٹرنیٹ کی مدد سے چارممالک میں باقاعدہ ایک برانڈ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
اب ایک اور بات پر دھیان دیں، آپ کو سمجھ آجائے گی کہ دراز ڈاٹ پی کے اور علی بابا کے درمیان میں کوئی تعلق قائم ہونے والا ہے یا نہیں؟ جیک ما اور میاں نوازشریف کی ملاقات جو گزشتہ برس جنوری میں ہوئی۔ اس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے۔ اس ملاقات کے دوارن میں جیک ما نے اس عزم کااظہارکیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے کاروباروں میں مدد دیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ایگزیکٹوز پاکستان کے ای کامرس کے شعبے میں خلا کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیارہیں۔ ایک ایسے ملک میں جو روایتی طور پر چین کا بہت قریبی ہے۔ سن دوہزار پندرہ میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے ملحقہ ممالک کے ساتھ چین کا تجارتی حجم ایک کھرب ڈالر سے بڑھ چکا تھا، ایسے میں یہ سوچنا بے وقوفی ہوگی کہ جیک ما کی ان ممالک پر نظر نہیں ہوگی اور وہ ان ممالک کی ای کامرس میں اپنا پرچم بلند نہیں کرے گا۔ اسی تناظر میں ماہرین کا خیال ہے جیک ما دراز ڈاٹ پی کے جیسی کمپنی کو ضرور خریدے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جیک بابا جب بھی دراز پی کے خریدنے کا ارادہ کرے گا تو وہ ایک سو سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر کی بولی لگائے گا۔ یہ ایک سیلف میڈ ارب پتی کی بڑی چھلانگ ہوگی۔ وہ اپنے قلم کی ایک جنبش سے چار ایسے ممالک کی مارکیٹوں پر قبضہ کرلے گا جو اس کے اپنے ملک کی اہم ترین ترجیح ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور میانمار کی مجموعی آبادی ساڑھے چار سو ملین ہے۔ اگر علی بابا چاروں ممالک کی یہ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ لزادا کی مارکیٹ سے بہت بڑی مارکیٹ ہوگی۔ ان ممالک کی معیشتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ بیرنز انہی کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ جنوبی ایشیا خاموشی سے اٹھ رہا ہے۔
آن لائن بزنس کی دنیا میں خریدوفروخت کی ان خبروں سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ای کامرس کا شعبہ کس تیزی سے ترقی کررہا ہے اور آن لائن ریٹیلنگ کے لئے پاکستان میں کس قدر زیادہ پوٹینشل ہے۔ یادرہے کہ علی بابا نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس وقت مارکیٹ میں علی بابا کا کاروباری حجم تین سو اسی ارب ڈالر ہے۔ اگردراز ڈاٹ پی کے کی فروختگی کا معاملہ حقیقت کی شکل اختیار کرجاتا ہے توعلی بابا کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا حجم چار سو ملین ڈالر تک پہنچ جائے گا، جو اس وقت تک ایک سو ملین ڈالر ہے۔