تجارت ایک بہت بابرکت پیشہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت بھی تجارت سے وابستہ تھی۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا شمار بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ تجارت سے وابستہ ہونا جہاں دنیوی کامیابی کا ذریعہ ہے وہاں اُخروی سعادتیں لوٹنے کا وسیلہ بھی ہے۔ ایک سچے تاجر کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا۔
‘‘ اسلام دین کامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہبری و رہنمائی کے لیے جامع اصول و قواعد فراہم کرتا ہے۔ تجارت پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، ملاوٹ، جھوٹی قسمیں کھانے اور ذخیرہ اندوزی و سود خوری جیسی تجارتی خرابیوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: ’’جو شخص خریدتا اور بیچتا ہے اُسے پانچ خصلتوں یعنی سود، قسم کھانے، مال کا عیب چھپانے، بیچتے وقت تعریف کرنے اور خریدتے وقت عیب نکالنے سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔‘‘ اسلامی تعلیمات کی رُو سے جو شخص مسلمانوں کے بازار میں تجارتی کاروبار کرتا ہے اُس میں کچھ صفات و خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اُس میں خرید و فروخت کی عقل موجود ہو اور وہ خرید و فروخت کے احکام کا علم رکھتا ہو۔ معیشت کے بارے میں اسلام یہ بنیادی تصور فراہم کرتا ہے کہ مال کا حصول اور اُس کا خرچ کرنا افراد اور سماج کے لیے نفع بخش ہو۔ اسلام ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کرتا ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہو، جیسے نشہ آور منشیات اور لہو و لعب کے آلات۔
مذکورہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اگر ایک تاجر ذیل میں آنے والی چند باتوں پر بھی توجہ دے تو وہ بہت جلد ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے:
1 مارکیٹ میں آنے والی ہر نئی چیز گاہک کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اپنی پروڈکٹس میں جدت پیدا کرنی چاہیے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے: ’’کل جدید لذیذ‘‘ کہ ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔
2 اپنی پروڈکٹ پر ہمیشہ نظر ہونی چاہیے۔ اگر کہیں کوئی خامی نظر آئے تو فوراً دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ کوئی دوسری کمپنی آپ کی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر آپ کی پروڈکٹ کی مارکیٹ کو ’’ڈی ویلیو‘‘ کر سکتی ہے۔
3 پروڈکٹس معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب قیمت پر فروخت کی جائیں۔ ایک کسٹمر پروڈکٹس کو یا تو غیر معیاری ہونے کی وجہ سے چھوڑتا ہے یا پھر اس کی قیمت عام مارکیٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔
4 ترقی در ترقی کا عزم تاجرانہ زندگی کے لیے صحت بخش غذا کا درجہ رکھتا ہے۔ بزنس میں اسی وقت تک ترقی ہو گی، جب تک نئے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا جذبہ برقرار رہے گا۔
ترقی بہت سے خیر کے کاموں کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ’’اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو مال کو پسند نہ کرتا ہو۔‘‘ (کنز العمال، ج 27، ص 83) کیونکہ اسی مال کے ذریعے نادار رشتہ داروں کی دیکھ بھال، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔
5 سخت محنت اور مسلسل کوشش کرنے والا ایک نہ ایک دن کامیابی سے ہمکنار ہو کر رہتا ہے۔ جن کمپنیوں نے بھی ترقی کی، ان میں یہ اوصاف پائے جاتے تھے۔ ایک سچے تاجر کو حالات کی سنگینی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
6 طے شدہ مال کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح آن ٹائم ڈلیوری مارکیٹنگ ویلیو کو بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن تین آدمیوں کو اللہ تعالی رحمت کی نظر سے نہ دیکھیں گے نہ گناہوں سے پاک کریں گے، بلکہ عذاب میں داخل کریں گے۔ ان میں سے ایک وہ تاجر بھی ہو گا جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہو۔‘‘ یعنی اس کا دکھانے اور ڈلیور ہونے والا مال الگ الگ ہو۔
اچھی اور منافع بخش تجارت مضبوط اور مستحکم معیشت کو جنم دیتی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اگر خرید و فروخت کا سلسلہ نہ ہوتا تو نظامِ حیات درہم برہم ہو جاتا، انسانیت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتی اور انسان ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے یا تو چوری اور لوٹ مار کا سہارا لیتا جس سے نہ صرف لوگوں کے اموال خطرات میں پڑ جاتے بلکہ، خونریزی کا بازار بھی گرم ہوتا۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور ہوتا۔ لہذا اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر خاص لطف و کرم فرمایا۔ لوگوں کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کی اجازت مرحمت فرما دی۔ تجارت کو ثواب اور اپنے قرب کا ذریعہ بنا دیا۔