علی بھائی
اس نے جتنے بھی کاروبار کیے سب فلاپ ہوئی،یا تو نقصان ہوتا رہایا نقصان ہونے کا اندیشہ ہونے لگا تو جان چھڑا کر جان اور مال بچایا۔
پراپرٹی کا کاروبار بھی نہ چلا،موٹر سائیکلوں کا شورو م بھی ٹھپ،کپڑے کی دکان بند ہوگئی،میڈیکل اسٹور کھولا تو گویا لوگوں نے دوائی کھانی چھوڑ دی ہو،فروٹ کی اعلیٰ انداز و کوالٹی کی مہنگی مارکیٹ میں شاپ بنائی تو گاہک ندارد!
میرا ہر کاروبار کیوں ٹھپ ہوجاتا ہی؟کیا میں باقی کاروباری لوگوں کی نسبت بے ایمان زیادہ ہوں؟بد اخلاق زیادہ ہوں؟ناجائز منافع خوری زیادہ کرتا ہوں؟اس طرح کے سوالات وہ خود سے خیالوں میں کرتا تو ضمیر جواب میں کہتا۔۔۔ نہیں نہیں!
پھر میرا کوئی کاروبار کیوں نہیں چلتا؟ اس سوال کا جواب نہ ضمیر سے ملتا اور نہ جاننے والوں سے۔ اس نے خدا کی مرضی سمجھ کر کاروبار کرنے کا خیال ہی دل سے ہمیشہ کیلیے نکال دیا۔کبھی یہاںکبھی وہاں جاب کرتا رہا۔ ایک دن جمعہ کا دن تھا۔اسے پہلی بار زندگی میں یہ خیال آیا کہ نماز جمعہ پڑھنے جایا جائے۔ نہا دھو کر جمعہ پڑھنے مسجد چلا گیا۔ مسجد میں خطیب صاحب نے تقریر میں کہا کہ’ بندہ جب اپنے مال تجارت سے زکوۃ دے یا اپنے مال سے صدقہ کرے تو اللہ اس کے مال میں،کاروبار میں،زندگی میںدکھوں سی،نقصان سے بچا کر امن، سکون اور برکت عطا فرما دیتے ہیں۔ مولانا صاحب نے مزید کہا کہ تاریخ اسلام میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ملتا کہ کوئی مسلمان صدقہ یا زکوۃ دینے سے غریب ہوا ہو، بے سکون ہوا ہو،کاروبار میں رزق روزی میں بے برکت ہوا ہو۔البتہ زکوۃ نہ دینے والی،صدقات نہ دینے والے بے سکون بھی ہوتے ہیں،بے برکت بھی ہوتے ہیں۔ صدقہ ایک راستے سے جاتا ہے اور دو راستوں سے رزق لے کر آتا ہے اور اسی طرح زکوۃ دینے سے مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔۔۔
مولانا صاحب بولے جا رہے تھی،ایک ایک لفظ دل میں اتر رہا تھا۔ وہ سوال جس کا نہ ضمیر جواب دے سکا تھا اور نہ تعلق والے دوست احباب،وہ جواب آج مولانا صاحب کی تقریر میں تسلی اور تشفی اسے مل چکا تھا۔ بس نماز ادا کی، مولوی صاحب سے ممنون و مشکور انداز سے ملی، جیب میں موجود اچھی خاصی رقم بطور ہدیہ مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کی اور خوشی خوشی گھر آگئے۔ بیوی نے وجہ خوشی معلوم کرنا چاہی تو بیوی سے کہا کہ اب میرا کاروبار کبھی ٹھپ نہ ہوگا۔ میں کاروباری معاملات کو لے کر کبھی مشکل نہیں دیکھوںگا۔ بس تو دیکھتی جا! اگلے دن جاب سے استعفٰی دیا اور سیدھے مولانا صاحب کے پاس پہنچے۔ نصاب زکوۃ کی جانکاری لی۔ گھر آکر اپنے مال کا حساب ٹوٹل کیا اور بستی کے انیس غریب گھروں میں جو یا تو غریب تھے یا بیواٶں کے تھے یا یتیم مگر مفلوک الحال لوگوں کے تھے۔ ان سب میں ان کی ضرورت اور پریشانی کے لحاظ سے اپنی زکوۃ شدہ رقم میں سے کسی کو کم یا زیادہ دے کر ٹوٹل زکوۃ کی رقم خرچ کی، باقی رقم جو اب پاک حلال تھی اس سے بلڈنگ مٹیریل کی کرا ئے پر اچھی بڑ ی دکان لے کر سامان ڈال دیا۔
پہلے تین چار ماہ تو کوئی خاص مزہ نہ آیا نفع کے حوالے سے مگر نقصان بھی نہ ہوا۔ کاروبار میں ترقی برکت نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر اب آہستہ آہستہ اس کے دل میں مولانا صاحب سے سنی باتوں سے دل یقین سے دور ہونے کی طرف مائل ہونے کا سوچنے لگا تھا۔ بیوی پہلے ہی مولوی صاحب کی باتوں سے مایوس ہو چکی تھی، روزبروز اس کاروبار سے بھی مایوسی پیدا ہونے لگی تھی۔ اسی دوران سال پورا ہوا۔ مولانا صاحب کے پاس گئے اور اپنا سارا رونا رویا،مایوسی اور نا امیدی کا ماتم کیا۔ مولانا نے پھر کہا کہ اب پھر اپنے موجودہ مال تجارت سے نصاب کے مطابق زکوۃ دو۔ وہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ مجھ سے اب یہ نہیں ہوگا۔ میں پچھلے سال بھی آپکی ہدایات کے مطابق زکوۃ دے چکا مگر کوئی ترقی برکت نا ہوئی۔ مولانا بھی کوئی عام نہ تھا۔ جب سا ئل کو مایوسی اور بے یقینی کی حدوں کو چھوتا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اب قرآنی یا دینی حوالہ جات سے مطمئن ہونے والے نہیں۔ مولانا نے اپنے ایک مالدار نمازی کو جو مولانا کی ہر بات پر جان چھڑکتے تھے سے سا ئل کو ضمانت دلائی کہ وہ پھر زکوۃ دے شر عی نصاب کے مطابق اور اپنا کاروبار جاری رکھے۔ اگر آیندہ سال تک کاروبار میں دن دگنی رات چگنی برکت نہ ہوئی تو میرا آدمی آپ سے آپ کا سارا کاروبار خرید لے گا اور آپ کی زکوۃ پر خرچ ساری رقم اور جاب کی تنخواہ جتنی تنخواہ دو سال کی دینے کا پابند ہوگا۔ وہ ان باتوں سے مطمئن ہوا اور کاروباری مال سے نصاب کے مطابق زکوۃ غرباء میں تقسیم کی اور دکان کھول کر بیٹھنے لگا۔
اب ہر جمعہ کو مولانا صاحب حال کاروبار اس سے پوچھتے تو جواب میں وہی مایوسی کی باتیں اور امید کے بجھتے چراغ! حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ سائل سے زیادہ مولانا کو فکر ہونے لگی۔ رات کا پچھلا پہر ہوا۔ مولانا نے دست دعا بلند کیی:
«اے اللّہ ! میں نے تیرے قرآن سے ایک بھٹکے ہوئے کو بگڑی ہوئی حالت سے سدھارنا چاہا، تیرے محبوب کی احادیث پڑھ کر حلال مال میں برکت کا یقین دلایا، اے اللّہ ! مجھے تیرے اور تیرے محبوب کے احکامات اور دلاسوں پر یقین ہے مگر میرے ذر یعے تجھ پر اور تیرے محبوب کی باتوں پر یقین میں آنے والا مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ اے رب ذولجلال! تو اس کی روزی کاروبار میں برکت فرما۔»
روز مولانا صاحب دعا کرتے رہے۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک دن خلاف معمول پیر کے روز دکاندار صاحب ظہر کی نماز کے وقت دمکتے چمکتے چہرے کے ساتھ مسجد میں مولانا صاحب کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی کہ سیمنٹ فیکٹری والے دو دن پہلے آئے تھے معاہدہ کرکے مجھے ایک بڑا گودام دے کر اور اس میں اپنے مال کی ایجنسی بنا کر دے گئے ہیں۔ اب اس پورے شہر میں اس کمپنی کا سیمنٹ میرے سوا کوئی کمپنی ریٹ پر نہیں بیچ سکے گا۔ کل سے لے کر اب تک میں کئی ٹرک مال علاقہ کے ڈیلرز کو بیچ چکا ہوںجس کی مد میں مجھے معقول منافع ہوا ہے۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا تو مجھے اپنے کاروبار میں دن دگنی ترقی نظر آرہی ہے اور میں دو دن سے انتہائی مطمئن ہوں۔ مولانا صاحب نے خوشخبری سن کر اللّہ کا شکر بجا لانے کیلئے دو رکعت نماز شکر پڑھی۔ ابھی دو چار ہی مہینے گزرے تھے کہ دو اور کمپنیوں نے اپنے مختلف نوعیت کے بلڈنگ میٹریل کے سامان کی ایجنسی گودام بنا کر دینے کامعاہدہ کر لیا۔ قصہ مختصر کاروبار میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہوتی گئی۔
ناکام تاجر اور اس کی بیوی اپنی سابقہ نا امیدی پر اللّہ سے ہمہ وقت معافی مانگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کو ایک بڑے شہر میں ایک بہت بڑا ادارہ بنا کر اس میں یتیم بچوں کی تعلیم تربیت پرورش کا انتظام کر کے کب کا کام شروع کر چکے ہیں۔ عقل والوں کیلیے اس واقعہ میں بڑ ی نشانیاں ہیں۔