انعام اللہ
کئی بار مسائل سامنے آئے۔ چور راستے بھی دکھائی دیے جو زیادہ نفع کے لیے کارگر ہو سکتے تھے، مگر میں نے ان کی طرف التفات نہ کیا، کیونکہ یہ بزنس کی طویل زندگی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔
یہ الفاظ ارلنگ پرسن کے ہیں جو ایک سویڈش تاجراورایچ اینڈ ایم کمپنی کا بانی ہے۔ یہ کمپنی سن 2013ء میں 3500 اسٹوروں کے ساتھ 55 ممالک میں موجود تھی اور اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار تھی اور ابھی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ارلنگ نے کس طرح کامیابی کا سفر طے کیا اور ایک قصاب کا بیٹا ملٹی نیشنل کمپنی کا مالک کیسے بن گیا؟ یہ ساری کہانی ارلنگ ہی سے سنیے:
میرے والد ایک قصاب تھے۔ وہ گوشت بیچا کرتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ دکان پر گوشت فروخت کرنے لگا۔ اس کے علاوہ کرسمس کارڈز اور اسٹیشنری وغیرہ بھی بیچی۔ ان چھوٹے چھوٹے کاموں سے مجھے اپنی پروڈکٹ فروخت کرنا اور گاہکوں کے ساتھ بھاﺅ تائو کرنا آگیا۔ معلوم ہوا اشیا کو فروخت کرنا ایک فن ہے اور یہ سیکھنے سے ہی آتا ہے۔
اگر آپ بزنس میں کامیابی کے خواہش مند ہیں تو بڑے شہر کا رخ کرنا پڑے گا۔انیس سو اڑتیس میں نے سٹاک ہوم جو سویڈن کا دارالحکومت ہے، کی طرف رختِ سفر باندھا۔ والد کے منع کرنے کے باوجود میں اپنے ارادے سے باز نہ آیا تو والد نے کہا: بیٹا! اپنا شوق پورا کر لے۔ ایک ہفتے کے اندر واپس آجائے گا۔ اس جملے میں شفقت تھی یا طنز، لیکن میں نے اپنے والد کو وہ کر دکھایا جس کی انہیں توقع نہ تھی۔ نو سال بعد وہ میری دکان پر مدد کرنے کے لیے گاﺅں سے شہر آ گئے۔ اپنے گاﺅں ویسٹراس سے اسٹاک ہوم تک بزنس میں خوف کو کبھی جگہ نہ دی۔
کمپنی کی بنیاد رکھنے سے پہلے میں جرمنی سے اسٹیشنری امپورٹ کرتا تھا۔ جرمنی میں اس وقت حالات بہت خراب تھے۔ امن نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ خوف و ہراس ہر سو پھیلا ہوا تھا، لیکن میں نے اپنے بزنس کو جاری رکھنے کے لیے ان باتوں کی کبھی پروا نہ کی اور وہاں جا کر چیزیں لایا کرتا تھا، اگرچہ مالی نقصان کے ساتھ جان جانے کا بھی خطرہ موجود تھا۔
کسی دوسرے کلچر سے سبق حاصل کرنا چاہیے، بشرطیکہ وہ آپ کے لیے مفید ہو۔ 1947ء میں امریکا کا سفر کیا۔ وہاں کے بڑے بڑے اسٹور دیکھے۔ ایک ریٹیل چین لرنر کو دیکھا جس کے جوتے ہمارے ملک سویڈن سے 75 فیصد سستے تھے۔ میں بہت حیران ہوا اور سوچا کہ ہمارے ہاں کیوں اتنے زیادہ مہنگے ہیں؟ اس کے ساتھ ایک دوسری ریٹیل چین اے اینڈ سی سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے یہاں سے یہ سبق سیکھا کہ اپنے حریفوں سے سستی اور مختلف پروڈکٹ بیچو۔ اس سے آپ بزنس میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ آخر یہی آئیڈیا میرے بزنس کی کامیابی کا سبب بنا۔ میں نے ماہر ڈیزائنرز کی خدمات حاصل کیں اور اپنی پروڈکٹ کو ایک نئی صورت دی۔
اپنے بزنس آئیڈیے کو بڑے پیمانے پر عملی جامہ پہنانے سے پہلے اس کو چھوٹے پیمانے پر آزما لیں۔ میں نے اپنا پہلا اسٹور 1947ءمیں اپنے گاﺅں میں کھولا۔ اس میں صرف زنانہ لباس کے کپڑے تھے، پھر وقت گزرنے کے ساتھ مردانہ اور بچوں کے کپڑوں وغیرہ کا اضافہ کیا۔ جب میرا بزنس اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا تو اسے شہر منتقل کیا۔ اگر آپ چھوٹے کاروبار میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ کے لیے سنبھلنا آسان ہوتا ہے اور آپ کی ساکھ بھی متاثر نہیں ہوتی۔ اگر بڑے پیمانے پر بزنس شروع کیا جائے اور وہ ناکام ہو جائے تو ساکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ گاہکوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور دوبارہ بزنس کو سہارا دینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
بزنس میں اتار چڑھاﺅ کو قبول کر کے اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ایک بار میرے ڈیزائنر نے پیرس میں ایک لہنگا ڈیزائن کیا اور زیادہ لمبا ڈیزائن کر بیٹھا۔ اس کی مانگ بہت بڑھ گئی اور یہ ہمارے پاس موجود نہیں تھا۔ جو ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا، وہ کوئی خریدنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ اس سے ہمارا بہت بڑا نقصان ہوا، لیکن یہ سبق بھی حاصل ہوا۔ نیا ڈیزائن لانے سے پہلے پرانا مال نکال لیا جائے اور نیا مال پوری تیاری کے ساتھ مارکیٹ میں لایا جائے۔
بزنس کو بہت تیزی سے پھیلانے کے بجائے مستقل بنیادوں پر چلائیں۔
اگر سالانہ بزنس کی بڑھوتری 15 سے 20 فیصد ہو رہی ہے تو اسی پر اکتفا کریں۔ یہ بہت مناسب ہے، ورنہ لالچ میں بزنس تباہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے 50 سال کے بعد امریکا میں اپنا پہلا اسٹور کھولا۔ آپ کو سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیسہ خرچ کرنے سے پہلے کمانا چاہیے۔ پروڈکٹ ایک ساتھ بڑی مقدار میں کبھی نہ خریدیں، بلکہ ضرورت کے مطابق متعدد بار خریدیں۔ اس سے نقصان کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اگر فیشن تبدیل ہو گیا یا ملکی حالات میں ہنگامہ آرائی ہو گئی تو آپ کا بزنس ڈوب جائے گا۔ اپنے کاروباری مقاصد پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔ جب آپ نے کوئی مقصد طے کرلیا ہے تو آپ کی راہ میں مشکلات کے پہاڑ حائل ہوں گے لیکن آپ کو اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ آپ کی رفتار اگرچہ آہستہ ہو جائے لیکن حرکت جاری رکھیے۔
میں نے اپنی کمپنی کو دنیا کی بہترین کمپنی بنانے کا ہدف طے کیا ہوا تھا۔ کئی بار مسائل سامنے آئے۔ چور راستے بھی دکھائی دیے جو زیادہ نفع کے لیے کارگر ہوسکتے تھے، لیکن وہ بزنس کی طویل زندگی کے لیے خطرہ تھے۔ 1970ء میں میری کمپنی کا نفع بہت کم ہوگیا پھر بھی میں کسی شارٹ کٹ راستے کے چکر میں نہ پڑا، بلکہ میں نے زیادہ منافع کے بجائے ہمیشہ کمپنی کی مسلسل بڑھوتری کو ترجیح دی۔
ارلنگ پرسن سن دوہزار دو میں پچاسی برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انیس سو بیاسی میں ان کے بیٹے سٹیفن پرسن مینیجنگ ڈائریکٹر بے، وہ اس وقت بھی ایچ اینڈ ایم کے چئیرمین ہیں۔ وہ کمپنی میں اٹھائیس فیصد حصص کے مالک ہیں۔ وہ سویڈن کے بارہ ارب پتیوں میں سے ایک ہیں اور دنیا کے سترھویں امیر ترین آدمی ہیں۔
ایچ اینڈ ایم کے دنیا کے باسٹھ ممالک میں پینتالیس سو سے زائد سٹورز ہیں۔ یہاں کام کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ اڑتالیس ہزار ہے۔ دنیا میں ملبوسات کے ریٹیلرز میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ یادرہے کہ پہلے نمبر پر جرمنی کی انڈیٹیکس ہے۔ ایچ اینڈ ایم دنیاکے تینتیس ممالک میں آن لائن بزنس بھی کرتی ہے۔
ارلنگ پرسن کہا کرتے تھے کہ نظریے کے بجائے عملی مشق کو اہمیت دی جائے۔ آپ جتنے بڑے آئیڈیے تخلیق کر لیں اور بزنس کی ضخیم کتابیں پڑھ لیں۔ جب تک آپ عملی قدم نہیں اٹھائیں گے، بزنس سے نابلد رہیں گے۔